تحریر : ڈاکٹر محمد ریاض چوھدری پاکستان کے مشہور و معروف شاعر، صحافی، سیاستدان اور بلند پایہ خطیب آغا شورش کا شمیری کو آج ہم سے بچھڑے بیالیس سال بیت چکے ہیں- انکی خطابت ، صحافت ، شاعری اور ادب کا مقصد صرف خوف خدا ہے انسان سے ڈرنا ربوبیت کی توہین ہے ۔ انکی قلم نے جو لکھا وہ معاصر ادیبوں کو نصیب نہیں ، جہاں الفاظ بولتے ہیں ، جملے دہکتے ہوں ، تحریر آتش فشاں ہو ، فکر پختہ اور روشن ہو اور نشاء کے قواعد کی پاسداری ہو ، خیالات کسی طوفانی بارش کی طرح آتے ہوں اور الفاظ موتی بنتے چلے جاتے ہوں ، اگر صاحب قلم جری اور بے باک نہ ہو تو ایسا لکھنا ممکن نہیں ہوتا۔
یہ جری خطیب اور صحافی حالات اور واقعات کے الجھاؤ کے باوجود اپنی ذات اور شخصیت کا صحیح مشاہدہ کرنے پر اس قدر قادر تھا ، اس کا انداز ان کے لکھے ہوئے مر ثیے سے ہوتا ہے – انہیں اپنی شاعرانہ صلاحیتوں اور ادیبانہ کمال اور خطی اُمّہ جوہر کا احساس تھا ہی لیکن وہ پروردہ زمانہ یاران آستین بدستا ں کے دو گانا رویوں سے بھی ے خبر نہ تھے۔
آغا شورش کاشمیری کا ہفت روزہ “چٹان “ بہت معروف اور مقبول رسالہ تھا۔ان کا اشاعتی ادارہ ۰مطبوعات چٹان” بھی بہت فعال تھا ۔ اس ادارہ نے شورش کاشمیری کی 18 تصانیف اور تالیفات شائع کیں – جن میں انکے دو شعری مجموعے بھی شامل ہیں- مو لانا ظفر علی خان ، سید عطا اللہ شاہ بخاری ، مولانا ابو آلکلام آزاد اور حمید نظامی پر شورش کی کتابیں لاجواب ہیں ۔ اقبال اور قادیانیت ‘ تحریک ختم نبوت اور فن خطابت کے موضوع پر شورش کی کتابیں نوجوانوں کے لئے مشعل راہ ہیں ۔ انکی کتابوں “پس دیوار زنداں” اور “شب جائے کہ من بودم” کے مطالعہ کے بعد ہی ہماری نئی نسل کو شورش کے زور قلم کا پوری طرح اندازہ ہو سکتا ہے ۔ گو شورش ہم میں نہیں مگر ان کے قلم سے روشن کئے ہوئے چراغ آج بھی پاکستان کی نظریاتی منزل کی سمت ہماری حقیقی رہنمائی کر سکتے ہیں۔
جناب شورش کاشمیری کو علم و نظر کی رفعتیں اورازمائش و ا بتلا میں سیاسی اجلا پن ے بے حد متاثر کیا ۔ اس ئیے انکے نزدیک ہر علمی وجود ادبی شخصیت اور سیاسی عظمت لائق تحسین ہے ۔ انہوں نے ابو الکلام آزاد سے انکے اسلوب نگاری اور اعجاز تحریر سے خطابت اور انشاء میں بیسو ں ادائیں سیکھیں ۔ علامہ اقبال نے انکو فکری جلا بخشی اور اسلام سے غیر متزلزل شعور بیدار کیا ۔ مولانا ظفر علی خان نے ان میں شعر گوئی کا ملکہ پیدا کیا اور صحافت میں آشہب خطابت کی شہسواری سکھائی ۔ سید عطا اللہ شاہ بخاری نے مجھے توحید کی راہ پر ڈالا اور رسول پاک سے میرے عشق کو پروان چڑھایا ۔ مولانا ابو اعلی مودودی کی تعلیمات میرے لئے مشعل راہ ہیں جنہوں نے یورپ کی علمی قیادت کو اسلام کا پیغام دے کر مسلمانوں کے معاشرے میں ایک ایسی تحریک پیدا کی جس کی فکری بنیادوں پر مسلمانوں کی نشاۂ ثانیہ کاسورج طلوع ہو سکتا ہے۔
آغاشورش کاشمیری کے تین رشحاتِ قلمِ ہیں ۔پہلی نظم کاعنوان “مسلمان “ہے جوعام مسلمانوں کے لیے طرز ِعمل اور فکر کی غما زہے، دوسری نظم “ہم اہل قلم کیا ہیں ؟”حکومتی دہلیزوں پر جُبّہ سائی کرنے والے صحافیوں کا پردہ چاک کرتی ہے ۔جبکہ تیسری نظم “دعائے نیمِ شَبی”بنیادی طور پر عام شہریوں خصوصاًسیاسی کارکنوں او ر صحافیوں کی ایک آرزو کااظہار ہے، جو آپ کی نذر ہے
دُعائے نِیم شَبی زورِ بیان و قوّتِ اظہار چھین لے مجھ سے مِرے خدا، مرِے افکار چھین لے کچھ بِجلیاں اُتار، قضا کے لباس میں تاج و کُلاہ و جبّہ و دستار چھین لے عِفّت کے تاجروں کی دکانوں کو غرق کر نظّارہ ہائے گیسو و رُخسار چھین لے شاہوں کو اُن کے غرّۂِ بے جا کی دے سزا محلوں سے اُن کی رفعتِ کہسار چھین لے میں اور پڑھوں قصیدۂ اربابِ اقتدار میرے قلم سے جُرأتِ رفتار چھین لے اربابِ اختیار کی جاگیر ضبط کر یا غم زدوں سے نعرۂ پَیکار چھین لے
قیام پاکستان سے پہلے انگریزی سامراج کے خلاف شورش کاشمیری کی جدوجہد اور لا زوال قربانیوں کی داستاں ہر ایک پر عیاں ہے اور پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد تحفظ ناموس رسالت کے لئیے شورش کی بے مثال خدمات حالات حاضرہ کی نوجوان نسل پر جادۂ حق پر چلنے کے لئیے حوصلہ اور استقامت پیدا کرنے میں اہم رول ادا کر سکتی ہیں – شورش میں قومی مقاصد کے لئیے قربانی دینے جذبہ بدرجہ اُتم موجود تھا – آج ہم اپنے گردو پیش پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں شورش کاشمیری جیسا ایک بھی مرد مومن ، مرد میدان اور قوم کی خاطر قربانیاں دینے والا ایک سیاست دان بھی دکھائی نہیں دیتا ۔ شورش اکثر اپنی تحریروں اور تقاریر میں یہ شاد عارفی کا یہ شعر پڑھا کرتے تھے۔
ہمارے ہاں کی سیاست کا حال مت پوچھو گھرے ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں
شورش کے نزدیک سیاست تماش بینی نہیں بلکہ قوم و ملک کی خاطر ایک مقدس فرض ادا کرنے اور قربانیاں دینے کا نام تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ سیاست میں قومی آزادی کے لئیے ان کی عمر عزیز کا طویل عرصہ جیل کی نظر ہو گیا ۔ اپنی ہی سیاسی جدوجہد کے پس منظر میں انہوں نے یہ شعر کئے تھے۔
ہم نے اس وقت سیاست میں قدم رکھا تھا جب سیاست کا صلہ آہنی زنجیریں تھیں از افق تا بہ افق خوف کا سناٹا تھا رات کی قید میں خورشید کی تنویریں تھیں
آج ہمارے قافلے میں ایک بھی شورش کاشمیری جیسا امیر کارواں نہیں اور نہ ہی اقلیم صحافت کا ایسا تاجدار جو ان کی طرح بیک وقت ایک آتش نوا مقرر ، ایک صاحب اسلوب ادیب ، ایک قادر الکلام شاعر اور ایک جرآت مند و بہادر سیاست دان بھی ہو ۔ شورش نے “ہمارا جواب پیدا” کے عنوان سے ایک نظم لکھی جس کے ایک شعر پر میں اپنے مضمون کا اختتام کرتا ہوں۔
تاریخ مرے نام کی تعظیم کرے گی تاریخ کے اوراق میں آیندہ رہوں گا
ختم نبوت کی خاطر اذیتیں اور قید وبند کی تکالیف جھیلنے والا شورش کاشمیری کچھ ایسے انداز سے رخصت ہوا کہ اپنے مشن کو بھی زندہ کر گیا اور ختم نبوت کے لئے جان دینے کا جذبہ بھی پیدا کر گیا.,۔