تحریر : عابد رحمت گزشتہ دنوں اقوام متحدہ کے ادارے برائے خوراک وزراعت کے زیراہتمام پوری دنیا میں خوراک کا عالمی دن منایا گیا۔ اس ادارے کے بنیادی مقاصد میں یہ شامل ہے کہ عالمی سطح پر خوراک کی پیداوار میں زیادہ سے زیادہ اضافہ کیاجائے ۔خوراک کی قلت کے خاتمے کے لئے جلدازجلدمؤثراقدامات کیے جائیں ۔عالمی خوراک کے متعلق عوام میں شعوروآگہی کواجاگرکیاجائے ۔غربت وافلاس کے خلاف بھرپورجدوجہدکی جائے اورغذائی قلت پرقابوپایاجائے، تاکہ آنے والی نسلیں خوراک کی قلت کاشکارنہ ہوں ۔یہ ادارہ سالہاسال سے اس کام میں کوشاں ہے مگراس کے باوجودبھی دنیامیں غذائی قلت اورخوراک کی کمی دورہونے کی بجائے بڑھتی جارہی ہے ۔اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال غذائی کمی کے شکارافرادکی تعدادمیں 11فیصداضافہ ہواہے ۔یہ امربھی قابل تشویش ہے کہ 2برس قبل دنیاکاہرساتواں فردغذائی کمی کاشکارتھا، جبکہ اس سال دنیاکاہرپانچواں فردغذائی کمی کاشکارہے۔
پاکستان غربت اورخوراک کی کمی کے لحاظ سے بدترصورتحال سے دوچارہے ۔ورلڈہنگرانڈیکس برائے 2017 ء کے اعدادوشمارسے پتاچلتاہے کہ پاکستان بدترین غذائی کمی کا شکارہونے والے ممالک کی فہرست میں چودھویں نمبرپرہے ۔ملکی آبادی کاہرچوتھافردغذائی قلت کاسامناکررہاہے ۔پاکستان میں غریب افراداپنی آمدنی میں سے 70فیصدحصہ خوراک پرخرچ کرتے ہیں لیکن پھربھی سات کروڑافرادکوپیٹ بھرکرکھانانصیب نہیں ہوتا۔اس حوالے سے اگردیکھاجائے تومجموعی طورپرپاکستان میں غذائی قلت کے شکارافرادکی تعداد49فیصدہے ۔اگراس غذائی قلت پرجلدقابونہ پایاگیاتومستقبل قریب میں یہ تعداد70فیصدتک پہنچ سکتی ہے ۔ یہ حقیقت بھی قابل غورہے پاکستان کوہرسال سات ارب ڈالرمعاشی نقصان اٹھاناپڑتاہے ۔ہمارے ملک میں اس وقت ایک تہائی آبادی انتہائی غربت اورمفلسی میں زندگی بسرکرنے پرمجبورہے۔
اب یہاں یہ سوال اٹھتاہے کہ آخر پاکستانی قوم ان حالات سے کیوں دوچارہے ؟کیاہمارے ملک میں زراعت کاشعبہ سرے سے موجودنہیں ؟پاکستان زرخیزہونے کے باوجودبھی کیوں بانجھ بن چکاہے ؟ان حالات کومدنظررکھتے ہوئے اگرجائزہ لیاجائے تومعلوم ہوتاہے کہ پاکستان میں زراعت کاشعبہ سب سے بڑاشعبہ ہے اورملکی پیداوارکاچوتھاحصہ اسی سے حاصل کیاجاتاہے۔جہاں پاکستان کوغربت میں دھکیلنے والے کمزورمالیاتی ادارے، بے جاحکومتی اخراجات، کرپشن اور ناکام اقتصادی پالیسیاں شامل ہیں ، وہیں کسانوں کااستحصال اوران کے حقوق کی پامالی بھی سرفہرست ہے۔
پاکستان میںخوراک میں زیادہ ترگندم ، چاول ، دالیں ، گوشت اورسبزیاں وغیرہ استعمال کی جاتی ہیں ۔لیکن بڑے ہی افسوس کے ساتھ کہناپڑتاہے کہ یہی چیزیں سب سے مہنگی ہیں ۔روزمرہ کی اشیائے خوردونوش میں روزبروزکئی گنا اضافہ ہوتاچلاجارہاہے ۔اس مہنگائی میں سبزیوں کی قیمتیں سب سے زیادہ ہیں۔ پیاز، ٹماٹر، ادرک ، لہسن ، دھنیا، لیموں ، آلواوردیگرسبزیوں کی قیمتوں میں گزشتہ کئی ماہ سے ہوشربااضافہ ہواہے ۔ٹماٹرکی قیمت نے توآسمانوںکوچھولیا، حالانکہ گزشتہ ہفتے 300ٹن ٹماٹردرآمدکیے گئے ، اس کے باوجودٹماٹرکی قیمت بدستورقائم ہے ۔ دس ہزارماہوارکمانے والاغریب اتنی مہنگی سبزیاں کیسے خریدے اورکیسے اپنی خوراک پوری کرے ۔پرائس کنٹرول کمیٹی اگرچہ اپنی سی کوشش کرتی ہے مگرپھربھی قیمتیں مسلسل بڑھتی جارہی ہیں ۔گورنمنٹ کی جانب سے سبزی فروشوں کونرخ نامے جاری کئے جاتے ہیں ، جس میں حدِقیمت مقررہوتی ہے مگردوکاندارمقررکردہ قیمتوں سے تجاوزکرتے ہوئے سبزی فروخت کرتاہے ۔میراذاتی مشاہدہ اورتجربہ ہے کہ سبزیوں کی اس مصنوعی مہنگائی میں سرمایہ داروں ، جاگیرداروں ، وڈیروں اورمفادپرستوں کاکردار95فیصدہوتاہے ، 4فیصدمنڈی لگانے والے آڑھتیوں اورایک فیصد کردا ر دوکاندرا شامل ہوتاہے۔
جب ایک دوکاندارمنڈی سے 150روپے کلوٹماٹرخریدتاہے اورگورنمنٹ کی مقررکردہ قیمت 100روپے ہے توپھرایسی صورت میں بیچارہ دوکا ند ا ر کیا کرے ۔یقیناوہ ایسے حالات میں نرخ نامہ لے کرایک سائڈپہ رکھ دے گااوراپنی بچت کے حساب سے ٹماٹرفروخت کرے گا۔جب سبزی مہنگی ہوتی ہے تواس میں سب سے زیادہ گاہکوں کوپریشانی ہوتی ہے ، اس کے بعددوکاندار،پھرمنڈی میں بیٹھنے والے آڑھتی اوراس کے بعدکسان کونقصان پہنچتاہے ۔کسان اورآڑھتی کے درمیان ایک ایساکرداربھی شامل ہوتاہے جوکہ مرکزی حیثیت رکھتاہے اوراس کونقصان کی بجائے کئی فیصدنفع ہوتاہے ۔یہی وہ کردارہوتاہے جوکسان سے سبزیاں لے کرآڑھتی تک پہنچاتاہے ، اسی کے ہاتھ میں قیمتوں کااتارچڑھائوہوتاہے ۔حکومت اس پرہاتھ ڈالنے کی بجائے عام دوکانداروںکولتاڑنے میں جتی ہوتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ قیمتوں میں کمی ہوناتودرکناربسااوقات چیزیں تک نہیں ملتیں ۔اس معاملے میں سب سے مظلوم کسان ہوتاہے ، کسان کاجب استحصال ہوتاہے اوراس کے حقوق کی پامالی جاتی ہے توپھروہ کھیتی باڑی چھوڑکرکسی اورپیشے میں طبع آزمائی کرتاہے ، یوں فی ایکڑزرعی پیداوارمیںمطلوبہ اہداف حاصل نہیں ہوتے اورزرعی شعبہ مسلسل جمودکاشکارہوتاجارہاہے ۔کسان اناج اگاناچھوڑرہے ہیں ، اصل کردارپوشیدہ رہ کراپنی ذخیرہ اندوزی اورمصنوعی مہنگائی جیسی مذموم سرگرمیوں میں مصروف ہے اورغریب خوراک کوترس رہے ہیں ۔ضرورت اس امرکی ہے کہ جلدازجلداس پوشیدہ کردارکے ہاتھوں کوروکاجائے تاکہ غریب کی خوراک پوری ہوسکے اوردنیاسے غذائی قلت کاخطرہ ٹل جائے۔