لال حویلی کا شیخ رشید

Sheikh Rashid

Sheikh Rashid

تحریر : پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید
آج پاکستان کی جمہوری قوتوں کو گرانے کے لئے غیر جمہوری قوتیں ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہیں۔سابق وزیر اعظم محمد نواز شریف کے بر سرِ اقتدار آتے ہی ان قوتوں نے اپنا مذموم کام شروع کر دیا تھا۔عمران خان جن کو اقتدار ملتا نظر نہ آیا تو وہ ان قوتوں کے سب سے پہلے اور بڑے آلہِ کار نبے ان کے ساتھ جہاں بہت سے پردہ نشین کام کر رہے تھے وہیں اسکرین پر موجودہ عسکری بیانئے کے حامل فوجی بھی الیکٹرانک میڈیا پر روزانہ موجودہ جمہوری حکومت میں کیڑے نکالتے رہے۔جمہوریت کے ان دشمنوں نے اورجمہوریت کو کمزور کرنے والے بعض میڈیا پرسنز اور ان کے مالکان مل کر جمہوری حکومت کو تختہء دار پر لٹکانے کے لئے دن رات ایک کئے ہوئے تھے۔دھرنا ون ،اسلام آباد کا لاک ڈاؤن اور دھرنا ٹونے وہ شور مچایا کہ لگا جمہوری حکومت اب گئی کہ جب گئی۔یہ بھی پورا پاکستان ہی جانتا ہے کہ ان کے پیچھے کون لوگ تھے؟مگر نواز شریف کی جمہوری حکومت سانس روکے ان تمام قوتوں کے ہوتے ہوئے اپنا کام خاموشی کے ساتھ کرنے کی کوشش کرتی رہی۔گو کہ اس میں بے حد دشواریاں بھی تھیں۔ان قوتوں سے جب کچھ نا بن پڑا تو پانا کیس کا شور شروع کیا گیا۔ فرشتوں سے جب اس میں کچھ نہ بن پڑا تو اقاماپرجمہوریت کا گلہ دبانے اور اس کا راستہ روکنے کی ،پاناما کی بجائے پوری قوت کے ساتھ کوشش کی اور منتخب وزیر اعظم کو اقامہ پر اقتدار سے چلتا کردیا!بات پر یاں زبان کٹتی ہے وہ کہیں اور سُنا کرے کوئی۔

سابق وزیر اعظم نواز شریف نے بہادری کا ثبوت دیتے ہوئے اقامہ پر بھی اسٹیپ ڈاؤن محض اس وجہ سے کر لیا کوئی یہ نہ کہے کہ منتخب وزیر اعظم نے عدلیہ کا احترام نہیں کیا۔ مگر فیصلے میں ان کے ساتھ جو ناانصافی جان بوجھ یا اَنجانے میں گئی،اُس کا ساری دنیا نے جی بھر کر برا منایا اور اُس پر کھل کر اظہارِ رائے بھی کیا گیا۔وطنِ عزیز میں تو انہوں اظہارِ رائے پر پابندیاں لگانے کے انتظامات کر لئے ہیں۔کیا ان بین الاقوامی اداروں کا بھی کوئی منہ بند کر سکے گا ؟

شیخ رشید کے بارے میں ساری دنیا جانتی ہے کہ وہ کس قماش کا نبدہ ہے۔وہ کبھی عدلیہ کے ترجمان بنتے ہیں تو کبھی فوج کے۔یہ اور ان کے ہمنوااشاروں کے منتظررہتے ہیں۔وہ کبھی ایک ماہ کا وقت دیتے ہیں اور کبھی دوچار دن میں جمہوریت کو چلتا کرتے دکھائی دیتے ہیں۔اس حوالے سے وہ اپنے اندر کا سارا زور لگا کر چیختے دیکھے جاتے ہیں۔ اس ظرح وہ اپنا کردار بطورِ لال بھجکڑ پورے طور پر انجام دینے کی کوشش کرتے ہیں۔بعض وقت تو ایسا لگتا ہے کہ ان کی آہ و بکاں سے آسمان اب گرا کہ جب گرا!مگر جب کچھ ہوتا ہوا نظر نہیں آتا تو یہ بندہ پھر بھی ڈھٹائی سے اپنی لن ترانی دھراتا رہتا ہے۔مگر ان کی بد قسمتی یہ کہ جن کی یہ نمائندگی کرتے دکھائی دیتے ہیں اُن کے پاس ماہرینِ نفسیات کی بھی کوئی کمی نہیں ہے۔مگر وہ بھی شائد ان کے پاگل پن کو انجوائے کر رہے ہوتے ہیں۔

مسلم لیگ کے رہنما جن کے متعلق موصوف نے پیشن گوئی فرمائی تھی کہ چالیس کے قریب افراد بمعہ سعد رفیق کے نواز شریف اور ن لیگ سے الگ ہو کر ایک نیا دھڑا بنا رہے ہیں۔اس حوالے سے سعد رفیق کا کہنا ہے کہ لال حویلی کے لال بھجکڑ ا کو ایسی پیشنگوئیاں تسکین دیتی ہیں، ورنہ یہ اور پاگل ہوجائے گا۔ مسلم لیگ پنجاب کے وزیرِ قانون رانا ثناء اللہ کہتے ہیں جب نواز شریف جدہ سے واپس آئے تو یہ(شیخ رشید) نواز شریف کے گرد کتے کی طرح دُم ہلاتے پھرتے تھے ۔مگر نواز شریف نے جب پرویز مشرف کے اس مداحی کو لفٹ نہیں کرائی تو یہ کتے کی طرح بھوکنا شروع ہوگئے۔ آجکل موصوف کو ایک ایسے سیاست دان نے جو سیاست کے رموز سے تو واقف نہیں ہے۔مگر بد زبانی کے کلچر کے وہ استاد ہیںْجو اداروں کا ترجمان بن کر انگلی ہلاواکر اقتدار کے ایوانوں میں داخل ہونے کے لئے بے چین دکھائی دیتے ہیں اور جو فرماتے تھے کہ شیخ رشید کو تو میں اپنا چپراسی بھی نہ رکھوں ، نے اپنا ترجمان بنالیا ہے۔حد تو یہ ہے کہ جب نواز شریف کو اپنا چارج پاناما کیس میں عدالت کے حکم پر اقاما پرچھوڑنا پڑا توشیخ رشید کو ہی ان کی اپنی جماعت کی جانب سے وزیر اعظم کا امیدوار بنا کر شائد موصوف کو مزید بے عزتی کے راستے پر ڈال دیا۔

پاکستان کی ستر سالہ سای تاریخ میں اس قدر مایوس سیاست دان شائد ہی کسی نے دیکھے ہوں۔جتنے مایوس شیخ جی اور عمران خان نیازی دکھائی دیتے ہیں۔یہ دونوں کبھی عدلیہ کے ترجمان کے طور پر سامنے آتے ہیں اور کبھی فوج کے۔کبھی خود ہی دنوں میں جمہور کی آواز بند کرتے دیکھے جاتے ہیں ۔عمران خان نیازی کامسئلہ تو صرف پیسہ ہے۔جس کی گونج ان کے ہر بیان میں سُنی جا سکتی ہے۔ اور شیخ جی کا مسئلہ عزتِ نفس ہے جو کہیں سے بھی ان کو مل نہیں پا رہی ہے۔کیونکہ یہ لوگ انتخابی عمل میں تو بظاہر اپنے معاملات اور خواہشات پوری ہوتے دیکھ نہیں رہے ہیں۔اب ان کی مرضی کے تحت نہ تو فوجی اقتدار اس ملک میں آتا بظاہر دکھائی نہیں دیتا ہے اور نہ ہی ٹیکنوکریٹ حکومت ملک میں جمہوری نظام کو گرا کر بنتی دکھائی دے رہی ہے۔

اس مایوسی کے عالم وہ چند بوڑھے صحافی اور جنرلز جو الیکٹرانک میڈیا پر ایک جانب اداروں کے ترجمان بن جاتے ہیں تو دوسری جانب عمران نیازی کو وزیر اعظم بنوانے کے خواب دیکھ رہے ہیں ۔وہ سب مل کر ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں ۔کہ کسی طرح ملک کا جمہوری نظام مارچ 2018 سے پہلے گرا دیا جائے ۔اس حوالے سے ہم صرف اتنا ہی کہہ سکتے ہیں یہ سب ’’اپنی حسرتوں پر آنسو بہا کر سوجائیں‘‘ کیونکہ اس ملک میں بظاہر ایسا کچھ ہونے والا ہے نہیں۔چاہے یہ کسی کے بھی ترجمان بن جائیں کہ یہان سب کے لئے نوشتہ دیوار ہے۔

Shabbir Ahmed

Shabbir Ahmed

تحریر : پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید
03333001671
shabbirahmedkarachi@gmail.com