تحریر : روہیل اکبر پاکستان میں بڑھتی ہوئی آبادی کے ساتھ آئے روز نت نئے مسائل بھی پیدا ہو رہے ہیں کیونکہ ہم نے آج تک ان مسائل کے حل کی طرف کوئی توجہ ہی نہیں دی یہی وجہ ہے کہ کبھی ہسپتال کے اندر ہماری مائیں اور بہنیں بچوں کو جنم دے رہی ہیں تو کہیں ایک ایک بیڈ پر تین تین مریض اپنا علاج کروارہے ہوتے ہیں اس وقت پاکستان کی تقریبا 20کروڑ کی آبادی کے لیے پورے ملک میں 1167ہسپتال ،5695ڈسپنسریاں،5464بیسک ہیلتھ یونٹس(بی ایچ یو) اور سب ہیلتھ سینٹرز،733میٹرنٹی اینڈ چائلڈ ہیلتھ سینٹرزہیں جن میں کل بیڈز کی تعداد 118869بنتی ہے اور ان تمام ہسپتالوں سمیت ایک عام ڈسپنسری بھی اس قابل نہیں ہے جہاں ہمارے حکمران اپنا علاج کرواسکیں اور نہ ہی کوئی ایسا قابل ڈاکٹر موجود ہے جسے ہمارے حکمران اپنا طبیب بنا سکیں اور ہم جوں جوں بڑے شہروں سے دور ہٹتے جائیں گے ویسے ہی صحت کی سہولیات بھی ہم سے دور ہوتی چلی جاتی ہیں۔
قصبہ جات میں جو بی ایچ یو ہیں وہاں پر ڈسپنسر ڈاکٹر ہوتے ہیں اور ڈاکٹر کہیں اور مصروف ہو جاتے ہیں ہمارے بڑے ہسپتالوں میں اکثر خاکروب بھی طبی خدمات سر انجام دیتے ہوئے نظر آتے ہیں ہمارے ڈاکٹر تو ویسے بھی خلائی مخلوق ہیں جو ہسپتالوں میں ہم زمین والوں پر احسان کرنے آتے ہیں جن سے ملنا اور مسئلہ بیان کرنا ہی ایک اہم مسئلہ بنا ہوا ہے اور رات کی ڈیوٹی کرنے والے ہمارے یہ مسیحا کسی کو اپنے پاس پھڑکنے کی اجازت بھی نہیں دیتے اور تو اور وارڈز کے دروازوں پر کھڑے دربان بھی کسی سے پیچھے نہیں ہیں جو بغیر خدمت کرائے کسی کی خدمت کرنے کو تیار ہی نہیں ہوتے خدانخواستہ موت کی صورت میں بھی ایمبولینس تک چھوڑنے والا پیسے مانگ لیتا ہے، صفائی والا پیسے مانگتا ہے۔
بیڈ کی چادر تبدیل کرنے والا پیسے مانگتا ہے ،مریض کی دیکھ بھال کروانے کے لیے پیسے دینے پڑتے ہیں ،وہیل چیئر پر کسی دوسری جگہ لیکر جانے کے لیے پیسے دینے پڑتے ہیں اور ہسپتال سے جاتے وقت وارڈ کا سارا عملہ مٹھائی کے پیسے لینے پہنچ جاتا ہے اورجن ہسپتالوں میں بچوں کی پیدائش کی سہولت موجود ہے وہاں پر مریض کے آتے ہی پورا عملہ پیسے مانگنے پر لگ جاتا ہے بچے کی پیدائش کے بعد تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ مریض اور اسکے لواحقین عزت سے واپس آسکیں اس تمام لوٹ مار سے ایم ایس سے لیکر سیکریٹری اور وزیرتک سب کو علم ہے مگر کوئی اس نظام کو درست کرنے کا حوصلہ نہیں کرتا کیونکہ ہسپتالوں میں تعینات ہونے والے سیکیورٹی گارڈ ،خاکروب ،وارڈ بوائے ،لیب اٹنڈنٹ،ٹیکنیشن،نرسیں ،ڈاکٹر،ایم ایس ،سیکریٹری اور وزیر سمیت تمام کے تمام سفارشی اور میرٹ سے ہٹ کر تعینات ہیں یہ صرف محکمہ صحت کا ہی حال نہیں ہے بلکہ پورے ملک میں موجود تمام اداروں کا یہی حال ہے اسی وجہ سے تو پاکستان کے شہریوں کے مسائل ختم ہونے کا نام نہیں لے رہے اس وقت میں صرف محکمہ صحت کے حوالہ سے ہی لکھوں گا کیونکہ بچے کی پیدائش سے لیکر بوڑھا ہونے تک ہمیں زندگی کے کسی نہ کسی موڑ پر ڈاکٹر سے واسطہ پڑتا ہی رہتا ہے اور بعض اوقات بیماری کی نوعیت کے حوالہ سے ہسپتال کا رخ بھی کرنا پڑتا ہے۔
ہمیں سب سے بڑا مسئلہ صحت کے حوالہ سے درپیش علاج معالجہ کے حوالہ سے ہی ہے اس وقت پنجاب کے 36اضلاع ،بلوچستان کے 32اضلاع،سندھ کے 29اضلاع ،خیبر پختون خواہ کے 25اضلاع،گلگت بلتستان کے 10اضلاع ،آزاد جموں کشمیر کے 10اضلاع ،7قبائلی ایجنسیز، 6 فرنٹیئر ریجن سمیت اسلام آباد ضلع میں اس وقت کوئی بھی ایک ایسا ہسپتال نہیں جہاں پر ہمارے مقامی حکمران اپنا علاج کرواسکیں کیونکہ ان سب کے پاس لوٹ مار کا پیسہ ہے بیرون ملک انکی جائیدادیں اور کاروبار ہیں پاکستان کو تو صرف انہوں نے تفریح گاہ کے طور پر رکھا ہوا ہے جہاں آکر وہ الیکشن الیکشن کھیلتے ہیں مزے سے اپنی باری لیتے ہیں اور پھر سکون سے اقتدار کے مزے لیتے ہیں بیوروکریسی کواپنا غلام سمجھتے ہیں پولیس کو گھر کی لونڈی بنا رکھا ہے اور باقی کے محکموں کو نااہل اور نکمے افسران کے ہاتھوں میں تھماکر لوگوں کا تماشا دیکھتے ہیں جب الیکشن قریب آتے ہیں تو پھر تمام سیاستدان ایک دوسرے کے خلاف محاذ کھول لیتے ہیں ایک جیت جاتا ہے تو دوسرا دھاندلی ،دھاندلی کا شور شروع کرکے عوام کی توجہ اپنی طرف کیے رکھتا ہے تاکہ جسکی باری شروع ہوئی ہے وہ کھل کر لوٹ مار کرسکے اور پھر وہی کام شروع ہوجاتا ہے جسکی نیت سے سیاستدان ایوانوں میں آتے ہیں بھلا خوامخواہ کروڑوں اور اب اربوں روپے لگا کر صرف عوام کی خدمت کے لیے تو یہ لوگ اسمبلیوں میں نہیں آتے اگر انہیں عوام کی خدمت کا اتنا ہی شوق ہے تو پھر ہر ایم پی اے اور ایم این اے اپنے اپنے علاقہ میں صرف ایک ایک معیاری ہسپتال اور تعلیمی درسگاہ ہی بنا دے جہاں پر وہ اپنے بچوں کو تعلیم دلا سکے اور اپنا علاج کرواسکے۔
اسے اپنے بچے پڑھانے اور اپنے علاج معالجہ کے لیے اسے یہ تمام سہولیات اپنے حلقہ میں ہی مل جائیں مگر ایسا نہیں ہوگا کیونکہ یہ سب لوگ صرف لوٹ مار کرنے لیے پیسے خرچ کرتے ہیں الیکشن میں جوا کھیلتے ہیں جیت گئے تو کئی گنا واپس مل جاتے ہیں ہار جائیں تو تجربہ کہہ کر اپنے آپ کو تسلی دے لیتے ہیں اگر ہارنے والوں کی پارٹی جیت گئی تو پھر بھی موجیں لگ جاتی ہیں کسی نہ کسی جگہ عہدہ مل ہی جاتا ہے اور کچھ نہیں تو اپنے ہی ضلع کی کسی نہ کسی کمیٹی کے چیئرمین لگ جاتے ہیں ابھی بھی ہمیں جو علاج معالجہ کی سہولیات دستیاب ہیں اس کے لیے ہمیں قیام پاکستان سے پہلے کی حکومت کو دعا دینی چاہیے جنہوں نے ہمیں ریل ،پانی ،صحت اور تعلیم کا نظام دیدیا ورنہ ہمیں اب جو تھوڑی بہت سہولیات میسر ہیں وہ بھی نہ ہوتی گذرے ہوئے 70سال ایک طویل سفر ہے ہم اگر کچھ کرنا چاہتے تو بہت کچھ کرسکتے تھے ہمیں تو آج تک بنیادی سہولیات ہی میسر نہیں ہیں ترقی ہم نے کیا خاک کرنی ہے۔
روٹی ،کپڑا اور مکان کا جھانسہ دیکر ابھی تک ہمیں لوٹا جارہا ہے خود چور ،ٹھگ اور فراڈیے ہونے کے باوجود سرکاری پروٹوکول میں گھومتے ہیں اور جن کے ووٹ سے اس قابل بنتے ہیں وہ بے بس اور مجبور لوگ اپنے بچے بھی ہسپتال کی راہداریوں میں جنم دے رہی ہیں ایک ایک بیڈ پر تین اور چار مریض اکٹھے اپنا علاج کروارہے ہوتے ہیں اور ادویات کے لیے انکے لواحقین قرضے کی بھیک مانگ رہے ہوتے ہیں خود کو خادم اعلی کہلانے والے کس منہ سے عوام کی خدمت کرتے ہیں انکے اپنے حلقہ میں ہی شہری علاج معالجہ کی سہولیات کو ترس رہے ہیں اور تو اور جہاں پینے کا صاف پانی میسر نہ ،روزگار نہ ہو ،انصاف نہ ہو ،میرٹ کے نام پر دھوکہ ہو ،فراڈ ہو ،لوٹ مار ہواور جمہوریت کی آڑ میں بادشاہت ہو اور پھر لوٹ مار کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ ہو اور جہالت اس حد تک ہو کہ بار بار لوٹنے والے کو ہی ووٹ دیکر اپنے اوپر مسلط کرلیا جائے تو پھر بچے سڑکوں پر ہی پیدا ہونگے راہ چلتے ڈاکوماریں گے بھی اور لوٹیں گے بھی بے روزگار پڑھے لکھے خودکشیاں کرینگے ہسپتالوں میں ایک بیڈ پر تین کی بجائے چھ مریض ہونگے اور ڈاکٹروں کی جگہ قصائی عملی طور پر ہسپتالوں کا نظام چلائیں گے بس ایک موقعہ اور دیں پھر دیکھیں کیسے ہر چیز ڈبل ہو جائیگی۔