سب کو معیشت کی پڑی ہے معاشرہ بگڑ گیا

Economy

Economy

تحریر : شیخ خالد زاہد
انسان اپنی ترجیحات طے کرتا ہے پھر ان پر عمل کرنے کیلئے کمر بستہ ہوتا ہے ۔ بھوک افلاس دنیا کا سب سے بڑا مسلۂ ہے اور نا معلوم کب سے ہے ،شائد یہ مسلۂ تاریخ کی تاریکی سے جڑا ہوا ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے،انسان کی بھوک بھی بڑھتی ہی جا رہی ہے ۔ دنیا اکیسویں صدی سے گزر رہی ہے جسے جدید ترین ایجادات کی صدی کہا جاسکتا ہے۔ اتنی جدت کے بعد بھی دنیا میں بھوک اور افلاس کا خاتمہ نہیں ہوسکا۔ دنیا عدم توازن کے باعث بھوک جیسے گھمبیر مسلئے کو حل نہیں کر پائی اور توازن میں بہتری لانے کیلئے کوئی خاطر خواہ عملی اقدامات بھی نہیں کئے گئے۔ بظاہر تو ساری دنیا میں غیر سرکاری تنظیمیں غربت کے خاتمے کیلئے کام کر رہی ہیں مگر غربت میں کمی ہوتی نہیں دیکھائی دے رہی بلکہ دنیا میں دہشت گردی اور اس سے نمٹنے کی مد میں یہ غربت بہت تیزی سے بڑھنا شروع ہوگئی ہے۔

ہم پاکستان کے شہر کراچی کی بات کرلیتے ہیں جہاں مختلف فلاحی ادارے مختلف مقامات پر کھانا کھلانے کا انتظام باقاعدگی سے کر رہے ہیں اور روزانہ ہزاروں لوگوں کوبغیر کسی معاوضے کے کھانا کھلارہے ، کھانے والا کوئی بھی ہوسکتا ہے کسی سے کوئی شناخت نہیں پوچھی جاتی کسی کی کوئی حیثیت نہیں دیکھی جاتی ۔ کھانے کا میعار پر بھی کسی لحاظ سے کم نہیں ہوتا ۔ پاکستان دنیاکی آٹھ ایٹمی طاقتوں میں سے ایک ہے ، یہ وہ ملک ہے جو اگر وجود میں آنے والے دن مشکلات میں نا گھرا ہوتا تو یقیناًپاکستان دنیا میں سپر پاور کی حیثیت رکھتا گوکہ اپنی افواج کے بل بوتے پر تو ہم آج بھی کسی سپر پاور سے کم نہیں ہیں۔ دنیا میں عدم توازن طاقتور اور کمزور کے درمیان حائل خلیج کا ہے ، یہ وہ خلیج ہے جو کبھی بھی نہیں بھر سکتی کیونکہ اسکو کبھی بھرنے کی کوشش ہی نہیں کی گئی اور نا ہی کی جائے گی جب تک دنیا میں رہیگی یہ مسلۂ بڑھتا ہی چلا جائیگا۔گوکہ ایسا بھی نہیں ہے کہ اس کے سدِ باب کیلئے کوئی عملی اقدامات نہیں کئے جا رہے۔ دنیا کا ایک طبقہ تو اپنے آپ کو معیشت کی دوڑ سے الگ تھلک کر کے بیٹھ گیا ہے اور وہ یاتو مار رہے ہیں اور موت بہت شرمندگی کیساتھ ان سے انکی زندگی خاموشی سے لے جاتی ہے۔

ساری دنیا کا تجزیہ کرلیں سب طرف سے ہر سطح پر اسی بات کا شور سنائی دے گا کہ اپنی بقاء کیلئے معیشت کا استحکام بہت ضروری ہے ۔ اس معیشت کو استحکام اور دوام دینے کیلئے ہم نے اپنی نسلوں کو تباہی کے راستے پر ڈال دیا ۔ علم صرف اس لئے حاصل کیا جانے لگا کہ کسی ایسے پیشے سے وابسطہ ہوا جائے جہاں زیادہ سے زیادہ پیسہ کمایا جاسکے۔ علم سے انسانیت کی خدمت کا جذبہ آہستہ آہستہ محو ہوتا چلا گیا اور صرف علم پر خرچ کئے جانے والی رقم کی واپسی اہمیت اختیار کرتی چلی گئی۔ ہر فرد اپنی اپنی دانست میں اسی تگودو میں مصروف ہے بلکہ دھت ہے کہ کسی بھی طرح سے اپنے معاشی حالات اچھے کروں اور جن کے اچھے ہیں وہ اور اچھے کرنے میں مگن ہیں۔ ہر دن زندگی کی کوئی نئی آسائش گھر میں اپنی کمی کا احساس دلانے لگتی ہے اور پھر اسکے حصول کیلئے حلال حرام سے مبرا تگ و دو میں نکل پڑتے ہیں، اس آسائش کے حصول تک دن رات کا فرق بھول بیٹھتے ہیں اور یہاں تک کے اپنے اہل خانہ اپنے بچوں سے ملاقات کو ہفتوں گزر جاتے ہیں۔ محنت میں تو عظمت ہے لیکن عظمت حرام سے ملنی مشکل ہوتی ہے ۔ جب افزائش نسل کی ترکیب میں آمیزش کا خیال نہیں رکھا جائے گا تو پھر معاشرہ اسی طرح ادب و آداب سے عاری ہوتا چلا جائے گا جیسا کہ آج کل ہوتا دیکھائی دے رہا ہے۔

مشرق اور مغرب کی تفریق روحانیت تھی جو مشرق کا خاصہ تھی اب ہم نے روحانیت کو چھوڑ دیا اورمادیت (جو مغرب کا خاصہ ہے) سے دل لگا لیا جو ہماری جسمانی ضروریات کی تسکین کا باعث بنتی گئیں اور ہمیں اپنا عادی بنا لیا۔دنیا کی ہر آسائش کا تعلق معیشت سے اور اس معیشت پر دنیا کے مخصوص طبقے کا قبضہ ہے جو اپنی دولت میں روز بروز اضافہ کئے جا رہے ہیں اسکے برعکس ایک محنت اور مشقت کرنے والا شخص بڑی مشکل سے اپنی زندگی کی بنیادی ضروریات پوری کر رہا ہے ۔ کسی خاص وجہ سے کسی کا کوئی کام نہیں ، کام جاری و ساری رہتے ہیں چاہے اس کا م کو کرنے والا بدلی ہی کیوں نا ہوجائے۔

معیشت کے استحکام کی کوششیں ہمیں اخلاقی اور معاشرتی قدروں سے دور سے دور کرتی چلی جا رہی ہیں اور ہم بہت بے فکری سے دور ہوئے جا رہے ہیں، اب ہم وہاں پہنچ چکے ہیں جہاں ان کی حدیں ہیں۔ معاشرے کا ہر فرد گھریلوناچاکیوں کی شکایت کرتا سنائی دیتا ہے بچوں کے نافرمان ہونے کا رونا روتا دیکھائی دیتا ہے مگر اس نہج پر پہنچنے کا سبب جاننے کا اسکے پاس وقت نہیں ہے اور نا ہی وہ اس مسلئے کو حل کرنے کیلئے بہت زیادہ سنجیدہ نہیں دیکھائی دے رہے۔ ساری کی ساری سنجیدگی اور دھیان معیشت کو مستحکم کرنے پر مرکوز ہے ۔ ملک کی معیشت کو ٹھیک کرنے والوں نے اپنی معیشت ٹھیک کرلی اور کرتے ہی جار ہے ہیں ان کی مرہون منت ملک کی معیشت تباہ ہوتی جا رہی ہے اور اس تباہ شدہ معیشت کا بہانہ بنا کر ہر ایک فرد اپنی معیشت کو ٹھیک کرنے میں مگن ملک کو تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کردیا ہے اور ملک کے معززین خود کو اشرافیہ کہنے والے جن پر ملک کی معیشت کو تباہ کرنے اور عوام کا پیسہ کھانے کے الزامات ثابت ہوچکے ہیں اور مجرم قرار پانے والے اپنی کرپشن سے بنائی شان و شوکت سے باہر نکلنے کو تیار نہیں ہیں۔ملک میں کرپشن کرکے معیشت کو تباہ کرنے والے ہی معاشرے کو تباہی کے دہانے پر پہنچانے والے لوگ ہیں ۔ انکا جرم ناقابل تلافی ہے انکی وجہ سے معاشرے میں بگڑنے والا توازن اب سنبھلتے دیکھائی نہیں دے رہا۔

ہم اپنی رہی سہی تہذیب اور تمدن جدید تعلیم کی بھینٹ ہنسی خوشی چڑھا رہے ہیں اور اپنے ہاتھوں سے اپنے آنے والے کل کو تباہ کر رہے ہیں۔ کیا آپ اس تفریق کو ختم کرنا چاہتے ہیں جو مشرق اور مغرب کے درمیان ہے ؟ اگر چاہتے ہیں تو پھر ذرا دھیان دیجئے ہم اپنے کل کے ساتھ کیا کر رہے ہیں۔

Sh. Khalid Zahid

Sh. Khalid Zahid

تحریر : شیخ خالد زاہد