اسلام آباد (جیوڈیسک) اسلام آباد کی احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے نیب کی جانب سے دائر تین ریفرنسز کی سماعت کی۔ اس موقع پر نواز شریف کی جانب سے ان کے نمائندے ظافر خان، صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن (ر) محمد صفدر کمرہ عدالت میں موجود تھے۔
ریفرنسز کی سماعت شروع ہوئی تو سابق وزیراعظم کے وکیل خواجہ حارث نے نواز شریف کی حاضری سے استثنیٰ کی درخواست جمع کرائی اور دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ان کے موکل پر فرد جرم عائد ہو چکی ہے اس لئے حاضری سے استثنیٰ دیا جائے۔
اس موقع پر کلثوم نواز کی میڈیکل رپورٹ بھی عدالت میں پیش کی گئی۔ نیب نے حاضری سے استثنیٰ کی شدید مخالفت کی۔ نیب پراسیکیوٹر عمران شفیق نے کہا کہ عدالت نے پہلے بھی 15 دن کا وقت دیا تھا اور اب ملزم کو یہاں ہونا چاہئے تھا، لگتا ہے کہ ملزم عدالت کو ایزی لے رہے ہیں۔
نیب پراسیکیوٹر نے استدعا کی کہ نوازشریف کے ضمانتی مچلکے ضبط کر کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے جائیں۔ فاضل جج نے کہا کہ آپ تبصرے نہیں صرف قانونی بات کریں، آپ کا اسلحہ قانونی کتب ہیں صرف وہی چلائیں۔
جج نے کہا کہ میڈیکل رپورٹس کے مطابق تو کلثوم نواز کی طبیعت بہتر ہو رہی ہے۔ نواز شریف کی قانونی ٹیم نے نکتہ اٹھایا کہ عدالت نے نواز شریف کی حاضری سے استثیٰ 15 روز کے لئے منظور کیا تھا اس عرصے کے لئے ظافر خان ان کے نمائندے تھے تاہم اب وہ قانونی طور پر نمائندے نہیں۔
خواجہ حارث نے کہا کہ تین ریفرنس کو یکجا کرنے کے لئے اسلام آباد ہائیکورٹ میں درخواست دے رکھی ہے جس پر 2 نومبر کو سماعت ہو گی۔
عدالت نے نواز شریف کی حاضری سے استثنیٰ کی درخواستیں مسترد کرتے ہوئے سابق وزیراعظم کے العزیزیہ سٹیل ملز اور فلیگ شپ انویسمنٹ ریفرنسز میں قابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کر دیئے جبکہ ایون فیلڈ ریفرنس میں نواز شریف کے ضامن کو نوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت 3 نومبر تک کے لئے ملتوی کر دی۔
استغاثہ کے گواہ جہانگیر احمد اور سدرہ منصور عدالت میں بیان ریکارڈ کرانے کے لئے موجود تھے لیکن نواز شریف کی استثنیٰ کی درخواست کے باعث گواہان کے بیانات قلمبند نہیں کئے جا سکے۔