تحریر : محمد عرفان چودھری چلو جلدی سے بطخ جیسا منہ بنائو کڑچ کڑچ کی آواز کانوں میں پڑی چلتے قدم رک گئے یہ سوچ کر اُلٹے قدم پیچھے گھوما کہ بطخ جیسا منہ تو بطخ کا ہی ہوگا اور یہاں ہسپتال میں بطخ کا کیا کام؟ ہسپتال کے ساتھ ملحقہ میڈیکل کالجز کی چند لڑکیاں ہاتھوں میں سیلفی سٹک تھامے بطخ جیسا منہ بنا کر تصویر لینے کی کوشش کر رہی تھیں مگر یہ بھول کر کہ انسان اگر بطخ جیسا منہ بنانے کی کوشش کرے تو وہ منہ کم دُر فٹے منہ زیادہ لگتا ہے انسان پاگل ہے جو اتنے خوبصورت منہ کو سیلفی لینے کے لئے بطخ جیسا بنا کر خوف صورت بنا لیتا ہے یہ سیلفی کا جنون ہی ایسا ہے کہ سر چڑھ کر بولتا ہے یہ ہمارے اندر اتنا سرایت کر چکا ہے کہ لوگ جگہ بھی نہیں دیکھتے کوئی دریا کنارے سیلفی لینے کے چکر میں تیزلہروں کی نظر ہو جاتا ہے تو کوئی چلتی ٹرین میں سیلفی لیتے ہوئے کھمبے کے ساتھ ٹکرا جاتا ہے۔
اگر سیلفی کی تاریخ پڑھی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ سب سے پہلی سیلفی 1839 ء میں رابرٹ کارنی لوئس جو کہ پیشے کے اعتبار سے کیمسٹ تھا اور فوٹو گرافی کا شوق بھی رکھتا تھا نے کیمرے کی مدد سے لی 1839ء اور آج کے دور میں بڑا فرق ہے اُس دور میں بھاگ کر کیمرے کے سامنے آنا پڑتا تھا یا چند برس پہلے تک کیمرہ اُلٹا کر کے اندازے کے ساتھ سیلفی بنائی جاتی تھی مگر اب جدید قسم کے موبائل کیمرہ فون کی بدولت یہ کام کافی آسان ہو گیا ہے جس میں پورا گروپ بآسانی فرنٹ کیمرے کے ذریعے سیلفی سٹک کی مدد سے تصویر بنوا لیتا ہے۔
فرق صرف یہ ہے کہ اب کیمرے جدید اور منہ بطخ جیسے ہو گئے ہیں بطخ جیسا منہ بنانا زبیدہ آپا کے ٹوٹکوں سے زیادہ آسان ہے بس کرنا یہ ہے کہ دونوں ہونٹوں کو ملا کر ایک کو اُوپر اور دوسرے کو نیچے کی جانب سکیڑ کر کمان کی شکل دینی ہے اگر کمان کی سمجھ نا آئے تو پھِستے (رُوٹھے) ہوئے بچے کی شکل دیکھ لیں آپ کو بخوبی اندازہ ہو جائے گا کہ بطخ کا منہ کیسا ہوتا ہے یا پھر ایک اور نہائت آسان طریقہ ہے کہ کپڑے سُکھانے والی چٹکنی لے کر ہونٹوں پر لگا لیں اس سے آپ کو بار بار پھِسنا بھی نہیں پڑے گا اور آپ کا منہ بھی بطخ جیسا ہو جائے گا۔
ہمیں اعتراض صرف بطخ جیسا منہ بنانے پر ہی نہیں ہے بلکہ اس بات پر بھی ہے کہ لوگ سیلفی کے چکر میں اخلاقیات کی تمام حدیں تک عبور کر جاتے ہیں کوئی ہسپتال میں مریض کی عیادت کے دوران سیلفی بنا رہا ہے تو کوئی جنازہ کندھے پر اُٹھائے سیلفی لے رہا ہے یہاں تک کہ معاشرے کے پڑھے لکھے لوگ دوران آپریشن سیلفیاں بنا رہے ہیں جو کہ انسان کی حماقتوں کا منہ بولتا ثبوت ہے اس لئے لوگوں سے گزارش ہے کہ چاہے وہ بطخ جیسا منہ بنائیں یا کسی اور جانور کی طرح بس سیلفیاں بناتے ہوئے اخلاقیات کے دائرہ کار میں رہیں تا کہ آپ کے بطخ جیسے منہ کی وجہ سے کسی کی دل آزاری نا ہو۔