تحریر : شیخ توصیف حسین ڈی پی او جھنگ لیاقت علی لوٹ مار کی اس اندھیر نگری میں ایک قطب ستارے کی حیثیت رکھتا ہے۔آپ یقین کریں یا نہ کریں لیکن یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ آج کے اس پرآ شوب معاشرے میں پچانوے پرسنٹ سیاست دان مذہبی رہنما تاجر ڈاکٹر اور اعلی عہدوں پر فائز بیورو کریٹس نفسا نفسی کا شکار ہو کر حرام و حلال کی تمیز کھو کر ملک وقوم کو دیمک کی طرح چاٹ کر ہڑپ کرنے کے باوجود بڑے تکبرانہ انداز میں اپنے آپ کو اعلی خاندان کے چشم و چراغ سمجھتے ہیں جبکہ غریب مظلوم افراد کو ایسے سمجھتے ہیں جیسے ہندو برہمن قوم اچھوتوں کو اگر آپ حقیقت کے آ ئینے میں دیکھے تو یہ وہ ناسور ہیں کہ جن کی لوٹ مار کے نتیجہ میں پندرہ سے بیس ہزار تنخواہ پانے والے سرکاری و غیر سرکاری افراد ملک میں روز بروز بڑھتی ہوئی مہنگائی کی زد میں آ کر زندہ درگور ہو کر رہ گئے ہیں۔
یہی کافی نہیں بعض مظلوم افراد ان ناسوروں کے ظالمانہ اور غیر منصفانہ رویے سے دلبرداشتہ ہو کر خودکشی اور بچوں کے فروخت جیسے گھنائو نے اقدام میں ملوث ہو کر رہ گئے ہیں اور جبکہ بعض افراد بھوک اور افلاس سے دلبرداشتہ ہو کر قانون شکن بن کر رہ گئے ہیں یہاں مجھے حضرت علی علیہ السلام کا فرمان یاد آ گیا کہ اگر کوئی غریب شخص اپنی بھوک مٹا نے کیلئے دو روٹیاں چراتے ہوئے پکڑا جائے تو اُس کے ہاتھ کاٹنے کے بجائے حاکم وقت کے ہاتھ کاٹ دینے چاہیے تو آج میں یہاں ان ناسوروں سے پوچھتا ہوں کہ جو چند کاغذ کے ٹکڑوں کی خا طر اپنا ضمیر اپنا مذہب فروخت کر نے کے باوجود بھی اپنے آپ کو خداوندکریم کے پیارے محبوب حضور پاک جس کے نواسے حضرت امام حسین علیہ السلام نے انسانیت کی بقا کے حصول کیلئے اپنا سب کچھ قر بان کر دیا تھا یہاں تک کہ اپنے چھ ماہ کے علی اصغر کو بھی کے امتی سمجھتے ہو اگر آپ کی یہی سوچ ہے تو مجھے تعجب ہے آپ پر اور آپ کی سوچ پر آپ شاید یہ تو بخوبی سمجھتے ہونگے کہ خداوندکریم نے صرف ایک حکم عدولی پر اپنے آپ کو فرشتوں کا استاد کہنے والے کو جو سزا دی تھی وہ آپ بھی جانتے ہیں اور میں بھی سوچو اور غور کرو کہ آپ جو آئے روز حکم خداوندی کو ٹھکراتے ہوئے انسانیت کی کھلے عام تذلیل کر رہے ہو تمھارا کیا حشر ہو گا۔
قرآن پاک جو کہ مسلمان قوم کیلئے ایک مقدس کتاب ہے جس میں خداوندکریم نے واضع ارشاد فرمایا ہے کہ میں نے تمام عبادات سے افضل عبادت حقوق العباد کو قرار دیا ہے حقوق العباد کے معنی ہے انسانیت کی بہتری اور بھلائی تو یہاں مجھے ایک واقعہ یاد آ گیا کہ ایک شخص نے حج کے دوران خداوندکریم کے پیارے محبوب حضور پاک سے دعا کے دوران التجا کی کہ مجھے بشارت دو کہ اس دفعہ حج کا ثواب کس شخص کو نصیب ہوا ہے جس پر اُس شخص کو حضور پاک کی جا نب سے بشارت ملی کہ اس دفعہ حج کا ثواب عراق کے رہائشی عبداللہ نامی شخص کو ملا ہے اس بشارت کے بعد وہ شخص حج کی فراغت کے بعد عراق پہنچا محض عبداللہ نامی شخص کی زیارت کیلئے کافی تلاش کے بعد وہ شخص عبداللہ نامی شخص کے گھر پہنچا جہاں پر اُس نے عبداللہ نامی شخص کے ہاتھوں کا بوسہ لیتے ہوئے کہا کہ آپ کو مبارک ہو کہ اس دفعہ حج کا ثواب آپ کو ملا ہے یہ سن کر عبداللہ نامی شخص نے اُس کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ جب میں حج کی ادائیگی سے قاصر ہوں تو پھر مجھے حج کا ثواب کیسے مل گیا عبداللہ نامی شخص کی اس بات کو سن کر وہ شخص پریشان ہو کر سوچنے لگ گیا کہ حضور پاک کی بشارت کبھی غلط ہو نہیں سکتی درحقیقت یہ ماجرا کیا ہے بالآ خر اُس شخص نے عبداللہ نامی شخص سے پو چھا کہ کیا تم نے اس دفعہ حج کی ادائیگی کا فیصلہ کیا تھا لیکن محض اس لیے حج کی ادائیگی سے قاصر رہا چونکہ میں نے جو رقم حج کی ادائیگی کیلئے جمع کی تھی وہ رقم میں نے ایک بیوہ خاتون جس کے معصوم بچے تین دن سے بھوکے تھے کی کفالت کیلئے دے دی تھی یہ سن کر اُس شخص نے عبداللہ نامی شخص کو پھر مبارک باد دیتے ہوئے کہا کہ اس دفعہ جو آپ کو حج کا ثواب ملا ہے یہ اسی بات کا ثمر ہے۔
سبحان اللہ سبحان اللہ آپ یقین کریں یا نہ کریں لیکن یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ میں کئی سالوں سے ان ناسوروں کی پریس میٹگوں میں محض اس لیے نہیں جاتا کہ خداوندکریم نے قرآن پاک میں واضح ارشاد فرمایا ہے کہ ظالموں کا ساتھ دینے والا بھی ظالم ہی تصور ہو گا چونکہ یہ ناسور اپنی پریس میٹگوں میں اپنے کالے کرتوتوں پر پردہ ڈالنے کیلئے سفید جھوٹ بولتے ہیں ہاں البتہ میں نے اپنے صحافتی تیس سالہ دور میں چند ایک اعلی افسران جس میں سابق ڈی پی او جھنگ ناصر خان درانی جاوید سلیمی اور بالخصوص ڈی پی او جھنگ لیاقت علی ملک کو دیکھا ہے جو اس پرآ شوب معاشرے میں نفسا نفسی کا شکار ہونے کے بجائے اپنے فرائض و منصبی صداقت امانت اور شرافت کا پیکر بن کر ادا کرنے میں مصروف عمل ہیں درحقیقت تو یہ ہے کہ مذکورہ آ فیسرز بالخصوص لیاقت علی ملک مظلوم غریب افراد کیلئے سایہ شجردار کی حیثیت رکھتے ہیں جبکہ ظالم شخص خواہ وہ کتنا ہی بااثر کیوں نہ ہو ایک ننگی تلوار کی حیثیت رکھتے ہیں جہنوں نے بھی مذکورہ آ فیسر سے ملاقات کی انہوں نے بتایا کہ مذکورہ آ فیسر کا شمار اُن چند ایک ایماندار اور فرض شناس افسران میں ہوتا ہے کہ جو اپنے فرض کو عبادت سمجھ کر ادا کرتے ہیں مذکورہ آ فیسر سے ملاقات کے دوران ایسے محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ایمانداری پیارو محبت کے فرشتے مذکورہ آ فیسر پر روز اترتے ہیں درحقیقت تو یہ ہے کہ مذکورہ آ فیسر ظلم و ستم لوٹ مار اور ناانصافیوں کی اندھیر نگری میں ایک قطب ستارے کی حیثیت رکھتا ہے کہ جس کی چمک سے نہ صرف مظلوم غریب افراد کے چہرے بلکہ محکمہ پولیس جگمگانے لگا ہے۔
مذکورہ آ فیسر جب کسی مظلوم شخص کی فریاد سن رہا ہو تا ہے تو ایسے محسوس ہوتا ہے کہ مذکورہ آ فیسر کی زبان پر دنیا بھر کا شہد امڈ آیا ہو مذکورہ آ فیسر درد دل رکھنے والا انسان ہے جو مظلوم افراد کی بروقت دادرسی کرنا اپنا فرض عین سمجھتا ہے سچ تو یہ ہے کہ مذکورہ آ فیسرانسان کے روپ میں ایک فرشتہ ہے جو جھنگ کی مظلوم عوام کیلئے ایک معجزہ ہے حالانکہ اس سے قبل یہاں پر جتنے بھی اعلی افسران تعنیات ہوئے مظلوم افراد کی دادرسی کرنے کے بجائے قانون شکن بااثر افراد جن میں سیاست دان سر فہرست ہیں کے گھر کی لونڈی بن کر اپنے فرائض و منصبی ادا کرتے ہوئے اپنے کالے کرتوتوں کے ہمراہ رفو چکر ہو گئے جس کے نتیجہ میں مظلوم غریب افراد بے بسی اور لا چارگی کی تصویر بن کر در بدر کی ٹھوکریں کھاتے رہے لیکن عدل و انصاف سے ہمیشہ محروم رہے لیکن مذکورہ آ فیسر کی فرض شناسی اور ایمانداری اُن وقت کے یزیدوں کیلئے ایک زندہ مثال ہے مذکورہ آ فیسر کو اگر اپنے فرائض و منصبی کے دوران زمین پر بھی بیٹھنا پڑے تو وہ کوئی عار نہیں سمجھتا جس کی واضح مثال سات محرم الحرام کا تاریخی جلوس ہے جس میں مذکورہ آ فیسر زمین پر بیٹھ کر بھی اپنے فرائض و منصبی ادا کرنے کے بعد مذکورہ جلوس کو امن و امان کے ساتھ منزل مقصود تک پہنچانے میں کامیاب ہو گیا مذکورہ آ فیسر کی تعنیاتی سے قبل عوام اور پولیس کے درمیان جو نفرت کی دیوار کھڑی ہو رہی تھی مذکورہ آ فیسر کی اعلی کارکردگی اور حسن و سلوک کو دیکھ کر آہستہ آ ہستہ گر رہی ہے سچ تو یہ ہے کہ مذکورہ آ فیسر کو دیکھ کر ظالم بااثر افراد و راشی اہلکار ایسے سہم جاتے ہیں جیسے سیاہ رات میں صبح کا پرندہ۔ جس دور میں لٹ جائے غریبوں کی کمائی اُس دور کے حاکم سے کچھ بھول ہوئی ہے