اسلام آباد (جیوڈیسک) پاکستان کے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے ان خبروں کو مسترد کیا ہے کہ امریکی وزیرخارجہ ریکس ٹلرسن نے اپنے حالیہ دورہ اسلام آباد میں 75 عسکریت پسندوں کے ناموں کی فہرست پاکستان کے حوالے کی تھی۔
امریکی وزیرخارجہ منگل کو پاکستان کے مختصر دورے پر اسلام آباد آئے تھے جہاں ان کی عسکری و سیاسی قیادت سے ملاقات ہوئی تھی۔
بعد ازاں ذرائع ابلاغ میں یہ خبریں سامنے آئیں کہ پاکستانی وزیرخارجہ خواجہ آصف نے پارلیمان میں قانون سازوں کو بتایا کہ ٹلرسن نے عسکریت پسندوں کی فہرست پاکستان کے حوالے کی تھی لیکن ان میں کوئی بھی شدت پسند پاکستانی نہیں تھا۔
ایک انٹرویو میں وزیراعظم عباسی نے کہا کہ امریکی وزیر خارجہ سے ہونے والی ملاقات کے دوران ایسی کسی فہرست کا ذکر نہیں ہوا۔
وزیراعظم نے کہا کہ امریکی وزیر خارجہ نے عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائیوں کے پرانے مطالبات کو دہرایا تھا جس پر انھیں بتا دیا گیا کہ پاکستان میں دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہیں موجود نہیں اور اگر قابل عمل معلومات فراہم کی جاتی ہیں تو ان عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔
مشرقی وسطیٰ اور جنوبی ایشیا کا دورہ مکمل کرنے کے بعد امریکی وزیر خارجہ نے صحافیوں سے گفتگو میں یہ کہا تھا کہ اپنے دورہ اسلام آباد میں انھوں نے پاکستان کو یہ پیغام دیا کہ امریکہ پاکستان سے کیا چاہتا ہے۔ ان کے بقول پاکستان سے اس بارے میں کوئی مطالبہ نہیں کیا گیا کیونکہ وہ ایک خودمختار ملک ہے اور یہ اسے ہی طے کرنا ہے کہ وہ کیا کرنا چاہتا ہے۔
شائع شدہ اطلاعات کے مطابق امریکی وزیرخارجہ کا کہنا تھا کہ امریکہ خطے میں دہشت گردی کے خاتمے کے لیے پرعزم ہے اور اگر پاکستان اس کے ساتھ تعاون نہیں کرتا تو واشنگٹن دوسرے طریقے سے عمل کرے گا۔
پاکستان اور امریکہ کے درمیان سرد مہری کے شکار تعلقات میں حالیہ اعلیٰ سطحی رابطوں سے تناؤ میں کسی حد تک کمی تو آئی ہے لیکن اب بھی دونوں جانب سے تحفظات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
امریکہ، افغانستان میں قیام امن کے لیے بھی پاکستان سے اپنا کردار ادا کرنے پر زور دیتا آ رہا ہے۔
اسلام آباد کا موقف رہا ہے کہ افغانستان میں امن خود اس کے اپنے مفاد میں ہے اور وہ افغانوں کی شمولیت اور ان کی زیر قیادت ہر امن عمل کی حمایت کے عزم پر قائم ہے۔
وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے بھی اسی موقف کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان سرحد پر اپنی جانب باڑ لگا کر عسکریت پسندوں کی نقل و حرکت کو روکتے ہوئے سرحد کو محفوظ بنانے جیسے اقدام کر رہا ہے اور افغانستان کو بھی چاہیئے کہ وہ اپنی جانب ایسے موثر اقدام کرے۔
انھوں نے ایک بار پھر کہا کہ افغانستان کے مسئلے کا حل مذاکرات کے ذریعے ہی ممکن ہے۔