تحریر : محمد ثاقب شفیع 17 اگست کے دن آسٹریلیا کے شہر کنبیرا میں سینٹ کے اجلاس میں ایک خاتون برقعہ پہن کر سینٹ کے چیمبر میں داخل ہوتی ہے اور 20 منٹ تک اجلاس میں بیٹھی رہتی ہے، اس دوران سینٹ کے کسی بھی ممبر کو اس خاتون کے برُقعہ پہننے پر کسی بھی قسم کی تشویش نہ ہوئی، آخر کارخاتون برقعہ اتار دیتی ہے تو اجلاس کے ممبر ز کو پتہ چلتا ہے کہ یہ پالین ہانسن ون نیشن پارٹی کی خاتون لیڈر سینیٹر ہیں۔
گرم جوشی کے ساتھ برُقعہ اتارتے ہی پالین ہانسن کہتی ہے ،مجھے اس برُقعہ کو اتارنے میں خوشی محسوس ہوئی کیونکہ اسے سینٹ میں موجود نہیں ہونا چاہیے!پھر سینٹ سے خطاب کر کہ کہتی ہے کہ آسٹریلیا میں برُقعہ پر پابندی لگا دینی چاہیے کیونکہ اس سے اصل چہرہ ہ چھپ جاتا ہے ، سینٹ کے چیمبر میں داخل ہوتے وقت سیکورٹی سٹاف نے میرا برُقعہ اتار کر میرے چہرے کی شناخت کا مطالبہ نہ کیا اور میں چپکے سے چیمبر میں آکر بیٹھ گئی،برُقعہ پہننے کی وجہ سے کسی کو پتہ نہیں چلتا کہ کون کہاں بیٹھا ہے یہ ایک نیشنل ٹھریٹ ہے،ہم نے نیشنل سیکورٹی کے نام پر 13اہداف کا سامنہ کیا ہے جن میں سے 3اہداف پر ہم نے قابو پا لیا ہے جبکہ بقیا اہداف کو حاصل کرنے کیلئے برُقعہ پر پابندی عائد کرنا ضروری ہے۔
پالین ہانسن کی تقریر کے بعد اٹارنی جنرل جارج برانڈس نے برقعہ کی پابندی کے مخالف مسلم عقائد کے احترا م میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے سینیٹر ہانسن کو آڑھے ہاتھوں لیا ،انہوں نے کہا میرے خیال میں آج جو آپ نے کرتب کر کہ دکھایاہے میں اسکو نظر انداز نہیں کر سکتا،آپ برقعہ پہن کر آئیں جبکہ آپ کا اسلام پر کوئی عقیدہ نہیں ہے اور میں آپکو یہ نصیحت کرتا ہوں احترام کے ساتھ آپ بہت احتیاط سے کام لیں کیو نکہ آپ کے اس عمل سے باقی آسٹریلوی سٹیزنز کے جذبات مجروح ہو ئے ہیںجبکہ ایسا کرنا جرم ہے،ہمارے ہاں 5لاکھ سے زائد آسٹریلوی مسلمان آباد ہیںاور وہ قوانین کی پیروی کرتے ہیںاور سینیٹر ہانسن یہ بات قابلِ درست ہے کہ ایک طرف بنیاد پرست مسلمان ہونا اور ہمارے قوانین کی پیروی کرناہمارے ساتھ مطابقت رکھتا ہے۔
میں پچھلے 4سال سے نیشنل سیکورٹی کونسل کا حصہ رہا ہوں اس دوران میں نے قومی سلامتی کونسل کے سنئیر وزراء کے ساتھ کام کیا ہے جوکہ وزیراعظم کے تابع ہیں،اسکے علاو ہ قومی سلامتی کونسل کے معاملات کیلئے میں نے ہر ڈائریکٹر جنرل نیشنل سیکورٹی اور ہر فیڈرل پولیس کمشنر کے ساتھ کام سرانجام دیاہے اس دوران ہمیشہ یہ ہی نصیحت رہی ہے کہ اس وقت انٹلیجنس اور قانون نافذکرنے کیلئے مسلمانوں کے تعاون سے کر کام کریں ،لیکن آج آپ کا مسلم کمیونٹی کو مذاق کا نشانہ بنانا انتہائی معیوب ہے جومسلم کمیونٹی کو اس کونے میں دھکیل رہا ہے جہاں ان کے مذہی لباس کا مذاق اڑانا حقیقت میں ایک گری ہوئی حرکت ہے اور میں آخر میں کہنا چاہتا ہوں کہ آپ اپنی اس حرکت پر غور کریں! اٹارنی جنرل کی تقریر کے اختتام پر سینٹ کے ممبرز کی کثیر تعداد نے کھڑے ہو کر اٹارنی جنرل برانڈس کی تعید کرتے ہوئے سینیٹر ہانسن کے خلاف ۔۔شیم ۔۔شیم ۔۔شیم کے نعرے لگائے ، اپنی تقریر کے اختتامی الفاظ ادا کرتے ہوئے اٹارنی جنرل رو نے کی کیفیت میں کپکپی کی صورت میں بات کر رہے تھے جیسے ان کے خود کے جذبات کومجروح کیا گیا ہے۔
اس کے علاوہ سینیٹر زینو سن نے ہانسن کو مجرم قرار دیا اور اس کے زہر اگلنے والے مسلم مخالف رویے پر جارج برانڈس کی قائدانہ جرات اور تحمل مذاجی پر خراج تحسین پیش کیا جبکہ سنییٹر ڈیرین ہنچ، میتھیاس، آرتھر،سیمن،جیمز،جین ہیم اور اینی روسٹم نے جارج برانڈس کے ہانسن کے ڈرامہ پر جلد از جلد جواب دینے پر خوب سراہا، سینٹ کی کاروائی کے اختتام پر فیصلہ کیا گیا کہ آسٹریلیا میں برقعہ پر پابندی کے لئے کسی بھی قانون کو نافذ کرنا باعث تشویش ہے لہذاٰ وقت کی ضرورت ہے کہ مسلم کمیونٹی کے ساتھ دوستانہ مراسم رکھے جائیں۔
پالین ہانسن کافی عرصہ سے آسٹریلیا مقیم مسلمانوں کے مخالف زہر اگل رہی ہیں جس کے باعث بین الاقوامی میڈیا ان کو اس طرح کی بے ہودہ حرکات کرنے پر کافی کوریج دے رہا ہے ،لیکن دوسری طرف برانڈس نے محتاط الفاظ کا استعمال کرتے ہوئے مسلم کمیونٹی کا ساتھ دیا اور ان کے الفاظ نے مسلمانوں کی حقیقی ترجمانی کی لیکن دوسری طرف اگر ہم خود مسلم ممالک کی طرف نظر دوڑائیں تو ہم کو خود ہمارے ممالک میں پالین ہانسن کے ہامی ملتے ہیں جو روزانہ مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کر رہے ہیں ،یہاں پر ایک بات کرنا بہت ضروری سمجھتا ہوں وہ یہ کہ انسانی آزادی اور امن کے دعویٰ داورں کا ٹولہ جب مذہبی آزادی کی بات کرتا ہے تو ان کے لئے مسلم مذہب کے علاوہ ہر مذہب کے لئے آزادی کی اہمیت موجود ہوتی ہے لیکن جیسے ہی اسلامی مذہبی آزادی کی بات ہو تو یہ لوگ حقیقت میں شیطان کے طابع ہونے کا ثبوت دیتے ہیںاب ہمارے ملک کی ہی بات کر لیں ایک مسلم ریاست ہونے کے باوجود یہاں پر مذہب مخالف قوانین کا وجود عمل میں لایا جا تا ہے چاہے وہ ختم نبوت ہو یا عورت کی آزادی کے نام پر برُقعہ کا خاتمہ اور اسکا استحصال، اپنے اقتدار کے حصول کے لئے ایسے ایسے قوانین کو مراتب کیا جاتا ہے جس سے مذہبی آزادی کو سلب کیا جا سکے پھر تو میں کہوں گا کہ ان حکمرانوںاور آسٹریلوی پالین ہانسن کے خیالات میں مماثلت ہے ،اور ان لوگوں کے لئے اتنا ہی کہنا کافی ہے کہ افسوس دنیا کے مزے اور اقتدار کے لالچ میں گھٹیا سودا کر بیٹھے ہیں جو انکے لئے آخرت میں وبالِ جان اور عذاب کا باعث ہے جس کی انہوں نے خود دعوت قبول کی ہے۔