محبت کو دنیا میں مشہور کر دوں تجھے بھی محبت میں رنجور کر دوں اگر شیشہء خواب کو چُور کر دوں تیری آنکھ کی پُتلیوں میں سما کر رہِ زندگانی کو پُرنور کر دوں تجھے اپنی دھڑکن میں محصور کر کے خیالوں کی دنیا کو معمور کر دوں میں آنچل میں یادوں کے تارے سجا کر تجھے ساتھ چلنے پہ مجبور کر دوں کبھی تتلیوں کے پروں پہ اُڑوں میں کبھی خوشبوئوں کو بھی مسحور کر دوں میں اپنی انائوں کی قربان گاہ کو محبت کی دنیا میں مشہور کر دوں سُلا کر مجھے جاگتا ہے زریں جو میں اُس خواب کو آج محصور کر لوں