تحریر : محمد مظہر رشید چوہدری کوہ ہمالیہ اور پیر پنجال کے پہاڑی سلسلوں کے درمیان میں واقع ایک خوبصورت وادی جسے کشمیر کہا جاتا ہے جس میں وادی کشمیر، جموں اور لداخ بھی شامل ہے ریاست کشمیر میں آزادکشمیر کے علاقے پونچھ، مظفرآباد، جموں کے علاوہ گلگت اور بلتستان کے علاقے بھی شامل ہیں شمالی علاقہ جات ( گلگت۔ بلتستان ) جسکادارالحکومت گلگت جبکہ رقبہ 72496 مربع کلومیٹر ( 28 ہزار مربع میل )اورآبادی تقریباََ 18 لاکھ ہے یہاں بولی جانے والی زبانیں اْردو’ پشتو’ شینا’ انگلش’ بلتی’ واخی’ بروشسکی’ ڈوما کی’ کھجونا’ کھوارہیں اس علاقہ کی سرحدیں افغانستان (شمال ) ‘ چین ( شمال مشرق) ‘ آزاد کشمیر ( جنوب) ‘ مقبوضہ کشمیر (جنوب مشرق) جبکہ ڈویژن گلگت بلتستان ہے جس میں سات ڈسٹرکٹ گھانچے ( خپلو) ‘ دیامر (چلاس) ‘ استور ( عید گاہ ) ‘ غذر ( گاکچھ) ‘ گلگت ( گلگت ) ‘ ہنزہ نگر ( علی آباد ) ‘ سکردو ( سکردو )۔ شمالی علاقہ جات میں 8 ہزار میٹر سے بلند پانچ اور 7 ہزار میٹر سے بلند پچاس پہاڑی چوٹیاں ہیں۔ یہاں پائے جانے والے دنیا کے دو بلند ترین پہاڑ کے ٹو ( ماؤنٹ گڈون آسٹن ) اور نانگا پربت ہیں۔شمالی علاقہ جات میں دنیا کے بلند ترین پہاڑی سلسلے پائے جاتے ہیں جن میں قراقرم اور مغربی ہمالیائی پہاڑی سلسلے نمایاں ہیں۔شمالی علاقہ جات میں دنیا کے تین طویل ترین گلیشیر زبیافو’ بالتورو اور باتورا پائے جاتے ہیں۔
چینی حکومت کے تعاون سے ” شاہراہ قراقرم ” کی تعمیر 1978 ء میں مکمل ہوئی۔دنیا کا سب سے بلند بین الا قوامی سرحدی وابستہ ” خنجراب پاس ” 4693 میٹر 15397 فٹ بلند ہے۔لفظ ” شمالی علاقہ جات ” سب سے پہلے اقوام متحدہ نے استعمال کیا۔ اس سے اقوام متحدہ کی مراد ” کشمیر کے شمالی علاقہ جات تھی۔شمالی علاقہ جات سے تعلق رکھنے والے فوجی اہلکار لانس نائیک لالک جان شہید کو 1999 ء میں معر کہ کارگل میں بے مثال جرات کا مظاہرہ کرنے پر پاکستان کا سب سے بڑا فوجی اعزار ” نشان حیدر ” عطا کیا گیاتھا۔اگست 1947 ء میں متحدہ ہندوستان کی تقسیم کے وقت ریاست کے ہندو راجہ نے اس مسلم اکثریتی ریاست کا غیر قانونی طور پر بھارت سے الحاق کر دیا۔ جموں و کشمیر کے عوام نے اس کے خلاف آزادی کی جنگ لڑی جس میں پاکستانی قبائلیوں نے بھرپور ساتھ دیا۔ 24 اکتوبر 1947 ء کو ریاست کا بہت سا حصہ بھارت کی افواج سے آزاد کروانے کے بعد آزاد ریاست کا اعلان کر دیا گیا۔اس وقت ریاست کا علاقہ لداخ چین کے قبضہ میں ہے جبکہ گلگت ایجنسی کو ذوالفقار علی بھٹو (سابق وزیر اعظم پاکستان) نے شمالی علاقہ جات قرار دے کر پاکستان میں ضم کر دیا۔ جموں و کشمیر کا کچھ حصہ بھارت کے زیر تسلط ہے ، جبکہ آزاد جموں و آزاد کشمیر ریاست جموں و کشمیر کا وہ حصہ ہے جو اس وقت پاکستان کے زیر انتظام ہے۔ اس کا باقاعدہ نام ریاست آزاد جموں و کشمیر ہے یہ علاقہ 13300 مربع کلومیٹر (5135 مربع میل) پر پھیلا ہے۔ آزاد کشمیر کا دار الحکومت مظفرآباد ہے اور ریاست آزاد جموں و کشمیر کی آبادی اندازاََ40 لاکھ ہے۔ اور یہاں پہاڑی، ہندکو،گوجری،پنجابی اور پشتو بولی جاتی ہیں۔
آزاد کشمیر کی شرح تعلیم 65 فیصد ہے۔کشمیر اپنی قدرتی خوبصورتی اور دلکش مناظر کی وجہ سے دنیا بھر میں جانا پہچانا جاتاہے سیر و تفریح کے لیے ہرسال بڑی تعداد میں لوگ آزاد کشمیر جاتے ہیں۔ خوبصورت مناظر کی وجہ سے مغل شہنشاہ ظہیر الدین بابر نے کہا تھا کہ کشمیر زمین پر جنت ہے۔آزاد کشمیر میں 10 اضلاع، 32 تحصیلیں اور 182 یونین کونسلیں ہیں۔ آزاد کشمیر کے میرپور ڈویژن میں ضلع باغ، ضلع بھمبر، ضلع پونچھ، ضلع سدھنوتی، ضلع کوٹلی، ضلع مظفر آباد، ضلع میر پور، ضلع نیلم، ضلع حویلی اور ضلع ہٹیاں شامل ہیں۔وادی کشمیر کو زمین کی جنت بھی کہا جاتاہے اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ وہاں کی زمین زرخیر ہونے کے ساتھ ساتھ آب وہوا بھی بہت خوشگوار ہے آزاد کشمیر کی 98فیصد آبادی اور شمالی علاقہ جات کی 78 فیصدآبادی مسلمان ہے۔ 12فیصد بلتستان میں اثناعشری شیعہ جبکہ گلگت میں 10فیصد اسماعیلی شیعوں کی ہے۔
آزاد کشمیر میں اکثریت 98% فیصدآبادی سنی مسلمانوں کی ہے اب اگر کشمیر کی سیاسی صورت حال کو دیکھا جائے تو پاکستانی عوام کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیتے ہیں جبکہ ہندوستان اس علاقے کو اپنا اٹوٹ انگ کہتا ہے مقبوضہ جموں و کشمیر بھارت کی سب سے شمالی ریاست ہے جس کا بیشتر علاقہ ہمالیہ کے پہاڑی سلسلے پر پھیلا ہوا ہے۔ جموں و کشمیر کی سرحدیں جنوب میں ہماچل پردیش اور پنجاب، بھارت، مغرب میں پاکستان اور شمال اور مشرق میں چین سے ملتی ہیں۔ مقبوضہ جموں و کشمیر تین حصوں جموں، وادی کشمیر اور لداخ میں منقسم ہے۔ سری نگر اس کا گرمائی اور جموں سرمائی دارالحکومت ہے۔مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کی اکثریت ہے جس میں وادی کشمیر میں مسلمان 95 فیصد، جموں میں 28 فیصد اور لداخ میں 44 فیصد ہیںپاکستان سمیت دنیا بھر میں مسلمان ہر سال 5فروری کو اپنے کشمیر بہن بھائیوں سے یوم اظہار یکجہتی مناتے ہیں اس دن پاکستان بھر میں عام تعطیل ہوتی ہے اس دن کو منانے کا مقصد کشمیری عوام کو یہ باورکرانا ہے کہ وہ اکیلے نہیں بلکہ پوری دنیا کے مسلمان ان کے ساتھ ہیں اسی طرح ہر سال 13 جولائی کو کشمیری موذنوں کے قتل کی یاد میں کشمیر اور بعض پاکستانی علاقوں میں منایا جاتا ہے جس کا مقصد ان شہداء سے اظہار عقیدت ہوتی ہے۔
اس دن 1931 میں مہاراجہ کشمیر کے سپاہیوں نے آذان دیتے 22 کشمیری نوجوانوں کو شہید کیا تھا کشمیر پر بھارت کا غاصبانہ قبضہ ہزاروں کشمیری نوجوانوں کی جان لے رہا ہے بھارت بندوق کی نوک پر کشمیر کو حاصل کرنا چاہتا ہے لیکن نہتے کشمیری ہزاروں جانوں کو نذرانہ پیش کرنے کے باوجود بھی بھارت سرکار کے آگے سر نہیں جھکایا ۔بقول شاعر یاران جہاں کہتے ہیں کشمیر ہے جنت ،جنت کسی کافر کو ملی ہے نہ ملے گی۔ 27اکتوبر1947 وہ دن ہے جب ہندوستان نے کشمیری عوام پر بلاکسی جواز کے اپنا قبضہ جمانے کا اعلان کیا اور ہندوستانی فو ج کو سری نگر ایئرپورٹ پر اتار دیا گیا یہ وہ دن ہے جب کشمیر یوں پر ظلم و جبر کے پہاڑ ڈھائے جانے کا آغاز کیا گیا کشمیری عوام اور پاکستانی عوام اس دن کو یوم سیاہ کے طور پر مناتے ہیں اس دن ملک بھر میں تقاریب سیمینار اور واک کا اہتمام کیا جاتا ہے اور حکومت پاکستان بھی اس دن کے حوالے سے اپنا اعلامیہ جاری کرتی ہے اسی سلسلے میں اوکاڑہ شہر میں بھی بھارت کی جانب سے کشمیری عوام پر ظلم وستم اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف یوم سیاہ کے موقع پر قومی وسماجی تنظیم “ماڈا”کے زیر اہتمام کانفرنس منعقد ہوئی۔
قومی وسماجی تحریک موومنٹ اگینسٹ ڈرگ ابیوز “ماڈا”کے زیر اہتمام کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں کشمیری عوام کے ساتھ ہونے والے مظالم کے خلاف آواز بلند کرنا ہم اپنا اخلاقی فرض سمجھتے ہیںکشمیر کی آزادی ہم پر قرض ہے وہ دن دور نہیں جب کشمیری عوام کو بھارتی فوج کے ظلم وستم سے نجات ملے گی 27اکتوبر 1947کا دن جب بھارتی فوج زبردستی کشمیر میں داخل ہوئی کشمیریوںکے لیے یوم سیاہ تھا تقریباََ ستر سال سے بھارتی فوج کشمیری عوام کو حق خودارادیت سے محروم کیے ہوئے ہے جوکہ انسانی حقوق کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے مقبوضہ کشمیر میں کشمیری عوام کے ساتھ بھارت کی جانب سے ظلم و ستم پر عالمی برادری کی خاموشی معنی خیز ہے کانفرنس سے چیئرمین یونین کونسل 8عمار اجمل چوہدری ،سٹی صدر مسلم لیگ (ن )یوتھ ونگ و کونسلر اکبر علی خاں ،سابق سینئر نائب صدر ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن اوکاڑہ مس صائمہ رشید ایڈووکیٹ،چیف آرگنائزر “ماڈا” وصدر سٹی پریس کلب رجسٹرڈ محمد مظہررشید چوہدری ،معروف سماجی ورکر سید ندیم مقصود جعفری نے خطاب کیا کانفرنس میںممبران وعہدیداران” ماڈا” نے بھر پور شرکت کی ۔مقبوضہ کشمیر کے حوالہ سے ایک نظم قارئین کرام کی نظر۔
چلو کشمیر چلتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔جہاں پر پھول کھلتے ہیں جہاں پر برف پڑتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔جہاں چشمے نکلتے ہیں جہاں پریوں کی بستی میں۔۔۔۔۔۔۔بھیانک ٹینک چلتے ہیں جہاں سرسبز کھیتوں میں۔۔۔۔۔۔۔خون کی ندیاں بہتی ہیں چلو کشمیر چلتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔جہاں دشت کا سایہ ہے جہاں ہر جا جنازہ ہے۔۔۔۔۔۔۔بہنوں کی عزتیں بے سبب پامال ہوتی ہیں جہاں مظلوم رہتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔چلو کشمیر چلتے ہیں کبھی جو جنت دیکھتا تھا۔۔۔۔۔۔۔وہ اب شمشان لگتا ہے چلو دشمن کی چوکی پر۔۔۔۔۔۔۔کوئی ہم وار کرتے ہیں حریت کے شہیدوں کو۔۔۔۔۔۔۔چلو سلام کرتے ہیں
بھارت کی ہر موقع پریہ کوشش ہوتی ہے کہ کشمیر پرغاصبانہ قبضہ برقرار رکھتے ہوئے دنیا کو یہ ثابت کر سکے کہ کشمیری عوام میں سے چند ایک لوگ آزادی کی تحریک چلا رہے ہیں باقی عوام اس کے ساتھ ہے لیکن حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے 98فیصدکشمیری عوام اورحریت رہنماء کشمیر کو پاکستان کے ساتھ دیکھنا چاہتے ہیں ایک اندازے کے مطابق کشمیر میں 6لاکھ سے زائد ہندوستانی فوج نہتے اور مظلوم کشمیریوں پرظلم وستم کا بازار گرم کیے ہوئے ہے عیدین،محرم الحرام،عید میلاد النبیۖ کے موقع پر کسی قسم کے اجتماع پر پابندی لگانا بھی بھارتی فوج کا وطیرہ بن چکا ہے لیکن عالمی برادی کو سوچنا ہوگا اورکشمیری عوام کو اسکا حق خودارادیت دینا ہوگا جس طرح دیگر ممالک میں ریفرنڈم کروائے جاتے ہیں اس طرح کشمیر میں عوامی رائے پر خاموشی کیوں یہ ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے پاکستان کے وزیر اعظم کی جنرل اسمبلی میں کشمیر کے حق میں تقریر اور اقوام متحدہ کو متعدد بار خطوط کے باوجودآخر اس پرعالمی برادری خاموشی کیو ں ہے بہرحال عالمی برادری کی خاموشی اور بھارت کی ہٹ دھرمی کے باوجود کشمیری عوام کا سر نہ جھکاہے اور نہ جھکے گا کشمیری عوام اپنے حق کے لیے جنگ لڑتے لڑتے ایک لاکھ سے زائد اپنے بھائیوں کی جانوں کی قربانیاں دے چکے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان اور کشمیر ایک زنجیر کی کڑی ہیں ان کو دنیا کی کوئی طاقت الگ نہیں کر سکتی۔