تحریر : حفیظ خٹک وطن عزیز میں 20 کڑور سے زائد عوام ہیں اور ان عوام میں عام عوام ہیں جو کہ مجموعی اکثریت کا خاصا ہیں۔ عام عوام ہی ہیں جو زندگی کے تجربات و عام نظر سے دیکھتے ہیں اور اور یہی عام عوام ہیں کہ اک صف میں کھڑے ہوتے ہیں تو نہ کوئی بندہ رہتا ہے اور نہ ہی بندہ نواز۔ پاکستان کی عام عوام ہی ہیںجو دنیاوی نقطہ نظر سے سے ساتویں ایٹمی قوت ہیں اور دنیا کا کوئی بھی ملک براہ راست اس کے سامنے کھڑا ہونے سے اجتناب کرتے ہیں، پسہ پردہ رہ کر اپنی جہت کے مطابق تمام تر سازشیں کرتے ہیں اور انہی سازشوں کو کامیاب کرانے کیلئے منظم منصوبہ بندی کرتے ہیں اور اس کے ساتھ ہی عام لوگوں میں سے بھی اپنے ہم خیال لوگوں کو ڈھونڈتے ہیں اور پھر ان اپنے اعزائم کی تکمیل کیلئے استعمال کرتے ہیں۔ پاکستان کی عام عوام اس ملک کیلئے ان خوابوں کو پورا کرنا چاہتی ہے جس کیلئے عام لوگوں نے قربانیوں کی داستانیں رقم کی تھیں۔ اس ملک کو موجودہ حالات سے بہتری کی جانب بہت آگے لے جانا چاہتے ہیں۔ عام لوگ ہی ہیں جو اپنے بڑوں کی باتوں میں آکر بہت کچھ کرنا چاہتے اور جانتے ہیں لیکن اب تلک قیام پاکستان سے کوئی عام عوام کے ان جذبات و احساسات کو شاید سمجھ نہیں پایاہے۔ آغاز سے اب تلک ہر حکمران نے اور ان کے بعد رہنماﺅں نے عوام کو اپنے تئیں اپنی ہی راہ پر منتقل کرنے اور اس لے چلنے کی کوششیں کی ہیں۔ اس صورت میں کیا نتائج ہونے چاہئے تھے تاریخ موجود ہے اسے اک نظر دیکھ کر ہی سمجھنے کے ساتھ احساسات کو بھی اجاگر کیا جا سکتا ہے۔
برصغیر کی عام عوام تھی عام مسلمان تھے جنہوں نے اپنے رہنماﺅں کے کہنے پر آکر پاکستان کیلئے اپنی جانیں قربان کیں ،اپنا مال و متاءچھوڑ کر ہجرت کی اور ہندوﺅں سمیت سکھوں کے کے بے انتہا مظالم کو برداشت کیا ۔ عام لوگوں کے ذہنوں میں یہ بات آگئی تھی کہ ہمیں اس جگہ کو چھوڑ کر ایسی جگہ جانا چاہئے جہاں ہم اپنے دین کے مطابق زندگیوں کو گذاریں گے۔ دو قومی نظریہ تھا جسے برصغیر کے عام لوگوںنے سمجھا اور اسی نظریئے کی بنیاد پر قائد اعظم کی رہنمائی میں اک الگ ملک پاکستان بنانے میں اپنا کردار ادا کیا ۔ عام پاکستانی تھے اس ملک کے قیام سے اب تلک یہ عام پاکستانی قربانیاں دیتے رہے ہیں ۔ حکمرانوں نے ان عام پاکستانیوں کیلئے ان کی فلاح و بہبود کیلئے وعدوں اور باتوں کے سوا کچھ نہیں کیا۔ یہ سازشیں ہی تھیں جو کہ اکھنڈ بھارت کا خواب دیکھنے والے بھارتیوں کو سکھ کا سانس لینے کے بجائے پاکستان کو تباہ کرنے کیلئے بنتی رہی ہیں۔ قیام پاکستان سے اب تلک اس بھارت نے متعدد جنگیں لڑیں جن میں انہیں شکست تک ہوئی لیکن اس کے باوجود انہوں نے اپنا راستہ نہیں چھوڑا۔ یہ اک حقیقت ہے کہ کبھی بھی مسلمانوں کو سامنے سے شکست نہیں ہوئی ہے ، ہمیشہ انہیں اند ر کی صفوں میں میر جعفر اور میر صادق جیسے کرداروں کی وجہ سے پیچھے ہٹنا پڑا ہے۔ ہندوﺅں نے عام لوگوں میں میر جعفر اور میر صادق نہ صرف ڈھونڈ ے بلکہ انہیں اپنے مقاصد کیلئے استعمال کیا اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ پاکستان دو حصوں میں تقسیم ہوگیا۔ بنگال سے بنگلہ دیش بن گیا ۔ عام لوگوں کی بدعاﺅں کی کا نتیجہ ہے کہ اس وقت جو رہنما اس سانخات کا سبب بنے انہیں کا انجام اچھا نہیں ہوا۔
پاکستان کے عام لوگ بہت محنتی اور پر جوش ہیں ، یہی عام لوگ ہیں کہ جو دنیا کے کشی بھی حصے میں مصیبت آجانے کے بعد اپنا کردار ادا کرت ہیں ۔ ہر طرح سے ان کی مددکرتے ہیں ۔ کہیں کوئی زلزلہ ہو، طوفان ہو یا سیلاب ہو، مسلمانوں پر مظالم ہوں غرض یہ پاکستانی عام لوگ ہر اک کیلئے دلوں میں زندہ جزبات رکھتے ہیں اور ان جذبات کو بھارت سمیت تمام وہ ممالک اچھی طرح جانتے ہیں جو کہ اس ملک کے خلاف اپنے خطرناک عزائم لئے کھڑے ہیں۔ پاکستان کے عام لوگ ہیں جو کہ دنیا کے عام لوگوں کو کچھ نہیں بہت کچھ سیکھانا چاہتے ہیں ، بہت بتانا چاہتے ہیں ۔ ان کیفیات کا عملی اظہار بھی وہ اس وقت کرتے ہیں جب انہیں کسی بھی میدان میں کسی بھی مرحلے پر موقع ملتا ہے۔
عام لوگوں کے مسائل کیا ہیں ؟ ان مسائل کو حل کرنے کیلئے اب تلک کیا اقدامات ہوئے ہیں ؟ سیاسی ، سماجی ، مذہبی و دیگر جماعتو ں نے عام لوگوں کے مسائل کو حل کرنے کیلئے عملی انداز میں کیا ، کیا ہے ؟ الیکشن کمیشن میں درج شدہ سینکڑوں جماعتوں نے عام لوگوں کیلئے کیا عام کام کئے ہیں ؟ اس کے ساتھ ہی پھر نئی سیاسی جماعت بنانے والے کس حد تک اپنے مقاصد میں کامیاب ہوتے ہیں ؟ انفرادی طور اپنے انداز میں اچھے کاموں کا آغاز کرنے والے اجتماعیت میں تبدیل ہوجاتے ہیں اور ان کے وہ اچھے کام بھی بہت پھیل اور پھل جاتے ہیں ۔ عام لوگ ان اچھے عام کاموں تک میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں ۔ ان کاموں کو پاکستان کے عام لوگ اپنا کام سمجھتے ہیں اور اس کے نتیجے میں وہ ان کاموں کو کامیابی کے ساتھ انجام تک پہنچاتے ہیں ۔ متعدد ایسی شخصیات ہیں جنہوں نے اک عام فردکی حیثیت سے اک عام کام کو عام آدمی کے فائدے کیلئے شروع کیا ، اس ایک عام کو اپنے جیسے عام آدمی ملتے گئے اور ان کا قافلہ بڑھتا گیا اور ان کے کاموں کو حوصلہ افزائی کے ساتھ تقویت ملتی رہی۔ مچھ مدت کے بعد عام لوگوں کو اپنی کامیابیوں پر یقین تک نہیں آتا رہا کہ وہ تو اکیلے اس جانب چلے اور بڑھے تھے لیکن اب وہ ان عام لوگوں کے باعث کہا ں سے کہاں آگئے اور انہیں کس قدر کامیابیاںحاصل ہوگئی ہیں اور یہ سفر ابھی جاری ہے۔ عام لوگوںنے معمولی کاموںسے لے کر بڑے بڑے کام کئے اور ان کا یہ سفر بھی جاری ہے۔
اک عام فرد جو اپنی کوششوں سے اک مقام تک پہنچا اور اس عام فرد نے دیگر عام کھلاڑیوں کے ہمراہ پاکستان کی عام کرکٹ ٹیم کو دنیا ئے کرکٹ کا عالمی چیمپئن بنا دیا اس کے بعد وہ عام فرد اک جانب کو ہوگیا اور اک کینسر کا ہسپتال بنانے کا اعلان ہی نہیں اپنے گھر سے چل نکلا ۔ پاکستان کے عام لوگوں نے جھولیاں بھر بھرکے اسے اپنی جمع پونجی دی اور عام لوگوں کی مدد دے بننے والا کینسر کا وہ ہسپتال بن گیا اور اک عام کینسر کے مریض بچے نے اس کا فتتاح کیا ۔ عام فرد کا وہ سفر رکا نہیں تھا اس نے اک اور ہسپتال کی بات ہی نہیں اس کی تعمیر کیلئے اپنے سفر کو جاری رکھا اور پشاور میں ایک اور کینسر کا ہسپتال بھی بنا دیا گیا ۔ عام لوگوں نے عام مریضوں کیلئے بننے والے دوسرے ہسپتال میں اپنا بھرپور عام کردار اداکیا ۔ اس کے بعد اسی عام آدمی نے تیسراکینسر ہسپتال شہر قائد میں بنانے کا اعلان کیا جس میں ایک بار پھر عام لوگوں نے اس کی معاونت کی اور یہ سفر ابھی جاری ہے۔ اسی عام آدمی نے اپنی سیاسی جماعت بھی بنائی اور اس ملک کے حالات بندلنے کیلئے عام لوگوں سے رابطے بھی کرتا رہا ۔ عام لوگ اس کی جماعت میں آتے رہے اور اس کی جماعت آگے بڑھتی رہی اور تاحال بڑھ رہی ہے۔
جسٹس (ر) وجیہ الدین بھی اسی جماعت میں اک عام فرد کی حیثیت سے شامل ہوئے اور اپنی خدمات سرانجام دیں۔ جسٹس وجیہ الدین جو کہ اک نام اور جن کا نام سامنے آتے ہیں سابق صدر (ر) جنرل پرویز مشرف کی تصویر بھی سامنے آجاتی ہے جنہوں نے متعدد قانون شکن کاروائیاں کیں ۔ان کے خلاف (ر) جسٹس وجیہ الدین ہی تھے جنہوں نے وکلاءکے ساتھ مل کر پرویز مشرف کے اقدامات کے خلاف علم بلند کیا ۔ ماہر قانون دان نے اپنے پیشے کے سفر کو ایک جانب رکھتے ہوئے علیحدگی اختیار کی اور وکلاءکے ساتھ مل کر جدوجہد جاری رکھی۔ جسٹس (ر) وجیہ الدین نے عمران خان کی تحریک انصاف میں بھی شمولیت اختیار کی اور ملک میں ہونے والے 2013کے عام انتخابات کے بعد صدارتی امیدوار بھی رہے۔ صوبائی ، قومی اور سینٹ کے وہ اراکین جو کہ عام لوگوں کے ووٹوں کے ذریعے یہاں تک پہنچے تھے انہوں نے جسٹس وجیہ الدین کو منتخب نہیں کیا اور ان کے مقابلے میں کھڑے ممنون حسین کو ملک کا صدر بنا ڈالا۔
جسٹس (ر) وجیہ الدین اک عام رکن تحریک انصاف کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریاں نبھاتے رہے اور پھر وہ وقت بھی آگیا کہ جب انہوں نے تحریک انصاف سے علیحدگی اختیار کر لی ۔ تحریک انصاف کے عام لوگ آج بھی انہیں یاد کرتے ہیں اور یہ چاہتے وہ دوبارہ تحریک میں آئیں اور آئندہ کیلئے ملک میں صدر کی حیثیت سے ذمہ داریاں نبھائیں ۔ لیکن وجیہ الدین تحریک انصاف کی جماعت کو چھوڑ کر الگ ہوگئے اور انہوں نے کچھ مدت کے بعد پاکستان کے عام لوگوں کیلئے عام لوگ اتحاد کے نام سے اپنی اک جماعت کی بنیاد رکھ دی۔ یہ جماعت عام لوگوں میں وقت گذرنے کے ساتھ سرائیت کرتی جارہی ہے اور یہ امید کی جاتی ہے کہ ملک کی تاریخ میں اپنی نوعیت کی یہ پہلی جماعت ہے جو کہ عام لوگ اتحاد کے نام سے موسوم ہے۔
(ر) جسٹس وجیہ الدین کا یہ کہنا ہے کہ شہر قائد سمیت ملک کے دیگر مسائل کو عام لوگ ہی مل کر حل کر سکتے ہیں اور کرینگے ۔ ملک کی اسی فیصد سے زائد آبادی عام لوگوں پر مشتمل ہے اور یہ عام لوگ ہی جانتے ہیں کہ ان کے مسائل کیا ہیں ۔ ملک میں موجود سیاسی جماعتیں ان کے عام مسائل کو حل نہیں کر سکتیں اور نہ ہی انہوں نے اب تک ان مسائل کو حل کرنے کی واقعتا کوششیں کی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ قیام پاکستان سے 2013تک ملک پر قرض 40کھرب ڈالز تھے جو کہ ان چند برسوں میں یہ قرض اب 80کھرب ڈالرز سے بڑھ چکا ہے۔
شہر قائد کی شہری انتظامیہ کا حال تو یہ ہے کہ اپنا کچہرہ تک اٹھانے کی ان میں ہمت و توفیق نہیں ہے اس کیلئے بھی بیرون ملک کمپنیوں سے معاہدے کئے گئے ہیں جن کے تخت ایک ٹن کچرہ وہ 26ڈالرز میں اٹھائیں گے۔ ان منصوبے سمیت دیگر کا بھی یہی حال ہے۔ جبکہ یہی صفائی والا معاملہ ان محنت کش بچو ں کے ذریعے بھی حل کیا جاسکتا ہے جو کہ مختلف وجوہات کے باعث تعلیم حاصل نہیں کر پاتے اور محنت سے اپنا اور اپنے گھر والوں کیلئے رزق کما رہاے ہوتے ہیں۔ محتلف قوموں کے وہ بچے جب نہایت کم قیمت پر صفائی کا کام اب بھی جاری رکھے ہوئے ہیں تو اس انتظامیہ کو چاہئے تھا کہ وہ انہی محنتی بچوں کے ذریعے اپنے مسائل کو حل کرنے کی کوشش کرتے ۔ اس عمل کے ہی مثبت اثرات مرتب ہوتے لیکن ہمارے حکمران اس ملک کے حق اس ملک کے عام عوام کی بہتری کیلئے فیصلے کم کرتے ہیں اور اپنی ذات کیلئے فیصلے زیادہ کرتے ہیں۔ جسٹس وجیہ الدین کا یہ بھی کہنا تھا کہ ملک اس وقت معاشی ابتری کی جانب بڑھ رہا ہے۔ عالمی بینکوں سے لئے قرض تک کی واپسی کی قسط کی ادائیگی مشکل نظر آرہی ہے لیکن سیاسی جماعتوں اور حکمرانوں کی اس جانب کوئی توجہ نہیں۔
جسٹس وجیہ الدین کا کہناتھا کہ انہوں نے تمام عمر اس ملک کی خدمت کی ہے اور اسی جذبے کے تخت انہوں نے پاکستان کے عام لوگوں کیلئے عام لوگ اتحاد بنائی ۔ تحریک انصاف کے ساتھ کچھ عرصہ رہا تاہم انہیں خیر باد کہہ کر اپنی اک سیاسی جماعت عام لوگ اتحاد بنائی جس کے پلیٹ فارم سے اس ملک کیلئے اس ملک کی عوام کیلئے عام لوگ ہی بہترین انداز میں اپنی خدمات سرانجام دیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس کی حیثیت سے ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے بھی اصولوں پر کابند رہا اور اس کے بعد اب تلک انہی اصولوں پر عمل پیرا ہوں ۔ انہوں نے امید ظاہر کرتے ہوئے کہا کہہ پاکستان کی عوام باصلاحیت ہیں انہیں مواقع دیئے جائیں تو اس ملک کو اس کے مقاصد کی تکمیل کی جانب جلد پہچانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔