تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری سابقہ مہینوں کی طرح اس ماہ کی پہلی تاریخ رات 12 بجے پٹرول بم پھر پھٹ چکا پٹرول کی قیمت 2.49روپے ڈیزل 5.19روپے ،مٹی کا تیل 5روپے اور لائٹ ڈیزل کی قیمتیں 3روپے تک بڑھا دی گئی ہیںاس ماہ کے آخری دنوں میں میڈیا نے خبریں دینا شروع کردی تھیں کہ تیل کی قیمتوں میں زبردست بڑھوتری ہو گی پورے ملک کے پٹرول پمپ والوں نے تیل دینا یا تو بالکل بند کردیا پھر فروختگی کم کرڈالی تھی تاکہ نئی بڑھی ہوئی قیمتوں سے ڈھیروں منافع کما سکیں پٹرول پمپ والوں نے زیادہ سے زیادہ تیل جمع کیا۔آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا )جو کہ حکومتی ادار ہ ہی ہے اور ہمارے ہی بینکوں میں جمع کردہ ٹیکسوں و دیگر فنڈات سے چلتا ہے اس لیے اوگرائی بیورو کریسی اور ادارہ کے دیگر ملازم افراد دیگر اداروں کے کرپٹ عہدیداروں جیسے سانپوں کی طرح سرکاری خزانہ سے ہی دودھ پیتے ہیں اور پھر ہمیں یہی سانپ سنپولیے ہر ماہ مزید ڈسنے کو تیار بیٹھے ہوتے ہیں۔
اوگرا نے ہی ہر ماہ کے آخری دنوں میںہمہ قسم تیل پٹرول ڈیزل اور مٹی کے تیل کی قیمتوں کو بڑھانے کے لیے الگ “حکم نامہ”تیار کرکے اسی حکومت کی وزارت کو بھجوانا ہوتا ہے جس پر وہ “حکم کی باندی اور لونڈیا “کی طرح من وعن نوٹیفیکیشن ہر ماہ کی آخری رات بوقت 12بجے اعلان کرکے پاکستانیوں کی آہوں سسکیوں کی پرواہ کیے بغیر قیمتیں بڑھا کر عوام کو مزید مہنگائی کی خونی چکی میں پیسنے کا انتظام کر ڈالتی ہے تیل کی قیمتوں کو بڑھانا کچھ ایسے ہی نہیں ہے بلکہ یہ دنیا کے غلیظ ترین اور کافرانہ سودی نظام سے جڑا ہوا سرمایہ داری نظام کے تحفظ اور غریبوں کا خون چوستے رہنے کی ہی ایک انوکھی واردات ہوتی ہے سودی نحوست کا یہ “کمال ” ہے کہ اس کے اثرات سرمایہ داروں پر اچھے مگر غریبوں کے لیے جان لیوا ہوتے ہیں۔
اب تیل کی قیمتیں بڑھانے سے دیگر ساری صنعتی مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہوگا ریلوں اور بسوں کے کرائے بڑھ جائیں گے غریب بیچارا روزمرہ اشیاء خریدتے اور سفر کرتے وقت اس نظام زر کی کارستانیوں پر کڑھتا رہے گا عالمی منڈی میں تیل کی جو فی بیرل قیمت ہے اس کے اتار چڑھائو کے مطابق یہاں بھی قیمتوں کا بڑھنا گھٹنا ہو تو کسی کو اعتراض نہ ہو مگر عالمی منڈیوں میں خواہ قیمتیں کم ہی ہوتی ہوں مگر یہاں مسلسل اضافے کا تمانچہ رسید کردیا جاتا ہے کوئی معیشت دان جمع تفریق کرکے دیکھ لے پٹرول کی قیمت 32روپے فی لٹر اور ڈیزل 35 روپے فی لٹرپاکستان میں فروخت ہونا چاہیے مگر حکمران ایسا نہ کبھی یہاں کرتے ہیں نہ کریں گے کہ او گرائی اور متعلقہ وزارت کی کرپٹ بیورو کریسی اور حکمران اور بالآخراصل حکمران اپنی ” مخصوص بچت “کو کیسے ختم کرسکتے ہیںاب کی بار تیل کی قیمت زیادہ کرنے سے بیورو کریٹوں کی اس ماہ میں ” نیک کمائی “کم ازکم 13ارب روپے ہوگی اور یہ “مفت کی مخصوص کمائیاں”کراچی کے زبردستی چندوں اور اغوا برائے تاوان کی کمائیوں کو لندن میں الطاف حسین کو بھجوانے کی طرح موجودہ و سابقہ حکمرانوں کی بیرونی ” پانامہ لیکس”اور زرداری کی ” وکی لیکس وسوئس بینکوں میں جمع ہوتے ہیںانہی جمع شدہ حرام مال سے آئندہ انتخابی کمپین چلے گی ویسے بھی بڑی پارٹیوں نے انتخابات کے موقع پر اخباری اشتہارات کے مطابق 25,30ہزار روپے ہر سیٹ پر حصہ لینے والے خواہشمندوں سے جمع کروانا ہوتا ہے مگر در اصل ٹکٹوں کی بولیاں لگتی ہیں 2013کے انتخابات میں ن لیگی ٹکٹیں جن کو دی گئیں ان سے 4 تا5کروڑ روپے پارٹی فنڈ کے نام سے علیحدہ چندہ وصول کیا گیاجس کا کوئی حساب کتاب تک نہ ہے۔
پی پی پی اور عمران کے ساتھیوں نے بھی ٹکٹوں کی بندر بانٹ کرتے وقت خوب مال کمایا تھا موجودہ حالات کے مطابق چونکہ ظاہراً( مستقبل کے حالات خدا ہی بہتر جانتے ہیں) پی ٹی آئی بھی ن لیگ کے مقابل آن کھڑی ہوئی ہے تو دونوں طرف امیدواروں کو ٹکٹ دیے جانے کی بولی کم ازکم 12یا15کروڑ “پارٹی فنڈ ” سے شروع ہو گی خدا خیر کرے۔پھر یہ بولی زدہ مخصوص جاگیردار ،وڈیرے ،نودولتیے سود خور سرمایہ دار اور ڈھیروں منافع کمانے والے صنعتکار اگر خدا نخواستہ خدانخواستہ منتخب ہو بھی گئے تو اقتدار کے پانچ سالوں کے دوران عوام کا خون ایسے چوسیں گے کہ خون چوسنے والی جونکوں کو بھی لوگ بھول جائیں گے۔اور سرکاری خزانے کا تو تیاپانچہ کر ڈالیں گے خدا ہمیں ایسے ظالم وڈیروں انگریزوں کے ٹوڈی بدمعاش جاگیرداروں کی کرپٹ اولادوں دنیا کے غلیظ ترین کافرانہ نظام سود پر پلنے والے نودولتیوں اور ناجائز ترین و ڈھیروں منافع خور صنعتکاروں کے 70سالہ عذاب مسلسل سے ہمیں محفوظ رکھیں۔
خدائے عز و جل و دنیا کے پالن ہار ہمیںبا کردار با اصول نئی قیادت نصیب فرمائیں تاکہ ہمہ قسم تیل(پٹرول ،ڈیزل ،مٹی کا تیل) فروٹ سبزیوں کی مہنگائی سے جان چھوٹ جائے بڑھتی ہوئی بیروزگاری، غربت ،مہنگائی دہشت گردی کے عذاب سے بچ سکیں اور ملک صحیح معنوں میں اسلامی فلاحی مملکت بن جائے جہاں آئین کے مطابق سبھی مستحقین کو علاج تعلیم انصاف خوراک لباس ،رہائش سفر کرنے اور بجلی گیس و صاف پانی اور اعلیٰ سیوریج سسٹم کی سہولتیں مفت مہیا ہو سکیں۔تیل کی بڑھوتری کی قیمتوں کو تو لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج کردیا گیا ہے مگر کیا کبھی کسی مقتدر سیاسی جماعت یا اس کے راہنمائوں نے ایکدوسرے کو مغلظات سنانے کے علاوہ مہنگائی کا بھی رونا رویا ہے۔
قطعاً نہیں حکمران توتیل کی قیمتوں کی مسلسل زیادتی کرنے کے ساتھ ساتھ ہی ممبران اسمبلی کو کروڑوں روپے کے فنڈز جاری کر رہے ہیں تاکہ وہ ضیا ء الحقی فارمولے”کلہ مضبوط کرنا” کے مطابق اپنے اپنے حلقہ انتخاب کی بیورو کریسی سے ملی بھگت کرکے انہیںمکمل ہضم کرسکیں اکا دکا رقوم سے دکھلاوے کے ترقیاتی کام کروائیں باقی سارا مال جمع رکھ کر آئندہ انتخابات جیت سکیں کہ اب “نوٹ دکھائو کہ میرا موڈ بنے”والا حربہ ہی استعمال ہوگا جو ووٹرز کو خریدنے میں کامیاب ہوگیااور ان کی خواہشات کے مطابق انہیں رقوم دیدیں اس کی کامیابی یقینی ہے اب نیا مقابلہ میںاترنے والا شخص کیا کرسکتا ہے؟ کہ درمیانے طبقے کے پڑھے لکھے افراد 2018کے انتخابات میں حصہ لینے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔غرضیکہ انتخابات سرمایوں کی جنگ ہوگی تاوقتیکہ غرباء کے اکٹھ سے اللہ اکبر تحریک اٹھے اور پولنگ اسٹیشنوں پر سارے سرمایہ دارانہ ہتھکنڈوں کو ناکام کرکے اقتدار کی باگیں بذریعہ بیلٹ ان سے چھین لے۔