تحریر : عنایت کابلگرامی ہر مسلمان کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کی زیارت کریں ، خواوہ حج کی صورت میں ہو یا عمرے کی شکل میں ہو ، اور یہی خواہش مجھ سمیت ہر پاکستانی مسلمان کی بھی ہے ، کلمہ ء پڑھنے کے بعد مسلمانوں پر کچھ اعمال فرض کئے گئے جن میں اول نماز، دوم روزہ ،سوم زکوٰة ، چہارم قربانی اور پانچواں حج ہے ، اس کے بعد کچھ عبادات سنت اور مستحب ہے ، ان ہی میں ایک ہے عمرہ چونکہ عمرہ سنت ہے (بعض مفسرین نے عمرے کو سنت موکیدہ اور بعض نے واجب قرار دیا ہیں)اس لئے یہ بھی ایک مکمل عبادت ہے ، عمرے میں چونکہ مسلمانوں کو اپنی مقدس مقامات کی زیارت نصیب ہوتی ہے اور بیت اللہ شریف اور مسجد نبوی ۖ میں نماز کا موقعہ مل جاتا ہے (کیوں کے حرم شریف میں ایک نماز ایک لاکھ کے برابر اور مسجد نبوی میں ایک نماز پچاس ہزار کے برابر اس کا ثبوت اس حدیث شریف میں موجود ہے ، سنن ابن ماجہ میں روایت ہے ، جس کے راوی حضرت انس ابن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں، حضرت انس ابن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہے کہ سرور کائنات ۖ نے ارشاد فرمایا: آدمی کی نماز اپنے گھر میں ایک ہی نماز کے برابر اور محلے کی مسجد میں اس کی پچیس نمازوں کے برابر اور اس مسجد میں جہاں جمعہ ہوتا ہے (یعنی جامع مسجد میں) اس کی نماز پانچ سو نمازوں کے برابر اور مسجد اقصی (یعنی بیت المقدس میں) اور میری مسجد (مسجد نبوی ۖ )میں اس کی نماز پچاس ہزار نمازوں کے برابر ہے اور مسجد حرام میں اس کی نماز ایک لاکھ نمازوں کے برابر ہے۔) اس لئے ہر مسلمان کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ بار بار مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کی زیارت کرنے سعودی عرب جائے ،چونکہ حج ایک مرتبہ فرض ہے اور اس کے اخراجات بھی زیادہ اس لیئے ایک مرتبہ حج کرے والے بھی بار بار عمرے کی سعادت حاصل کرنے کے لئے سعودی عرب کا رخ کرتے ہے۔
ہر سال حج کے دوران اور اس کے بعد ہم پاکستان میں یہ سنتے ہیں کہ حاجیوں کو اس اس طرح لوٹاگیا ، دوران حج ان کو ان ان مسائل کا سامنا کرنا پڑا ، ان کو ہوٹل ایک بتلایا گیا اور وہاں جانے کے بعد ان کو کسی اور ہوٹل میں ٹہرا دیا گیا ان سے پیسے 5اسٹار یا 4اسٹار ہوٹل کے لئے گئے مگر ان ٹہرایا گیا تو 2اسٹار یا 3اسٹار میں بعض حاجیوں کو تو اس سے بھی گئے گزرے ہوٹل میں ٹہرادیاجاتاہیں ، اس کے علاوا مینا میں خیموں کی کمی کا سامنا اور ٹرانسپورٹ کی وقت پرعدم دستیابی جیسے مسائل کا سامنا رہ تا ہیں ، یہیں سارے مسائل عمرہ زائرین کے ساتھ بھی پیش آتے ہیں، اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لئے مقدس مقامات کی زیارت اور وہاں عبادت کے لئے جانے والوں کو اس طرح لوٹا جا تا ہیں کے جیسے ان کے مال پر ٹریول ایجنٹوں یا وزارت حج والوں کا حق ہو ، یہ وہ چند مسائل ہے جن کو میں نے آپ کے سامنے لانے کی کوشش کی اگر ان کو تفصیلی انداز میں لکھوں تو ایک ضخیم کتاب بن جائیگی ۔
جبکہ اب پاکستانی عمرہ زائرین کی پریشانیاں بھی دن بدن بڑھتی جارہی ہیں اور عمرہ زائرین کو پہلے ہی لاتعداد مسائل کا سامنا تھا اب ان کو ایک اور عجیب مسئلہ میں مبتلا کردیا گیا وہ ہے ، ”بائیو میٹرک ” (بائیو میٹرک کیا ہے ؟ پہلے اس پر کچھ روشنی ڈالتے ہیں،بائیو میٹرک کی بہت سارے ا قسام ہے چہرے کا ،آنکھوں کا ،لیکن جو عام ہے وہ ہے فنگرپرنٹ مثلاََ ہاتھ کے تمام انگلویوں اور انگوٹھوں کا نشان حاصل کرنا جیسے قومی شناختی کارڈ کے دوران نادرا والے حاصل کرتے ہے )اب ہر اس شخص کو جو عمرے کی سعادت حاصل کرنا چاہتا ہو تو اس کو بائیومیٹرک کے مراحل سے گزرنا پڑے گا ، بائیومیٹرک چار برس قبل بھی پاکستان کے عمرہ زائرین پر لاگو کیا گیا تھا لیکن اس وقت حکومت پاکستان کی مداخلت پر اس کو ختم کردیا گیا تھا، لیکن اب ایک بار پھر سے اس کو صرف و صرف پاکستانی عمرہ زائرین پر لاگو کیا گیا ہے ، بائیو میٹرک کو لاگوکرنے کی وجوہات سعودی وزار ت داخلہ نے کچھ یوں بیان کی ہے ، ان کے مطابق ہم غیر قانونی آفراد کا سعودیہ عرب میں داخلہ بند کرنا چاہتے ہیں اسی بائیومیٹرک کی نفاذ سے ہمیں ان کی سرگرمیوں کا پتا بھی چلے گا ، کہیں یہ لوگ کسی غیر قانونی کام یا دہشت گردی میںتو استعمال نہیں ہورے ہیں اور اس سے ہم ان پر بہتر انداز میں نظر رکھ سکتے ہیں۔
بائیومیٹر ک صرف پاکستانی عمرہ زائرین پر ہی کیوں لاگوں کیا گیا ہے حلانکہ سعودی عرب میں غیرقانونی طریقے سے رہنے والوں میں پاکستانیوں سے کئی گنا زیادہ ہندوستانی ہیں ، جبکہ سعودی میں غیر قانونی طریقے سے بنگلہ دیشی افغانیوں اور سوڈانیوں کی بھی ایک بڑی تعداد موجود ہے، یہ دوہرا معیار صرف پاکستان سے ہی کیوں؟ اب ان سے بڑکر یہ کہ پاکستانیوں کے بائیو میٹرک کے لئے سعودی عرب نے ایک پرائیوٹ کمپنی ”اعتماد ” کی مدد حاصل کی حلانکہ اعتماد نامی اس کمپنی کے تمام ممبران ہندستانی ہیں ، جن میں ایک بڑی تعداد ہندوں کی ہیں، بائیو میٹرک کے اس مراحل سے گزرنے کے لئے اب روزانہ کی بنیاد پر اعتماد کے دفتر کے باہر رش لگا ہوگا کیوں کے پاکستان سے روزانہ کم بیش پانچ ہزارآفراد عمرہ کرنے کی سعادت حاصل کرنے سعودی عرب جاتے ہیںچونکہ پاکستان میں اعتماد کے دفتر صر ف پانچ شہروں میں ہے (اسلام آباد ،کوئٹہ، کراچی ، لاہور اور پشاور) ان کے علاوا دیگر شہروں کے باشندو کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑئیگا ، اس کے ساتھ اعتماد نامی اس کمپنی پر ہندستانوں کی اجر داری قائم ہے ، جس سے یہ خطرہ بھی پیدہ ہوتا ہے کہ پاکستانیوں کے اور پاکستان کا اہم ڈیٹا ہندستانی ایجنسیوں کے ہاتھ لگ سکتا ہیں، جو ملک کی سلامتی کے لئے ہر گز مفید نہیں ہے۔
سعودی عرب کے اس دوہرے معیار پر حکو مت پاکستان کی خاموشی بھی ایک المیہ ہے ،سعودی عرب پاکستان اور پاکستانیوں کے احسانات کا اچھا صلہ دے رہا ہیں ، سعودی عرب اسرائیل جنگ ، مکہ پر صبائیوں کا قبضہ ، موجودہ دور میں سعودی عرب ایران تنازع اور سعودی عرب کو لائق خطرات ان تمام واقعات اور معاملات میں پاکستان اور پاکستانی سعودی عرب کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے تھے اور ہیں ، لیکن اس کے باوجود سعودی عرب کا یہ روپ سمجھ سے بالاتر ہے ، یا یوں کہوں کہ سعودی عرب کسی کی ایماء پر پاکستان کے ساتھ منافقت کا روایا اختیار کرچکا ہے تو غلط نہیں ہوگا ، اگر حکو مت نے وقت پر اس کا حل نہیں نکالا تو آئندہ دنوں میں اس سے بڑ کر مسائل درپش ہوسکتے ہیں، حکو مت کو سنجید گی کے ساتھ سوچنا ہوگا ،اور سعودی عرب کی شاہی حکو مت سے اس موضوع پر بات کرنی ہوگی ، تاکہ پاکستانی عمرہ زائرین کو مزید کسی پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑیںاور بائیو میٹرک کی اس پنچائت کو ختم کریں ۔ اللہ ہی ہمارے ملک پر رحم کریں (آمین )