تحریر : محمد اعظم عظیم اعظم سابق وزیراعظم نواز شریف نا اہل کیا ہو ئے؟آج اِنہوں نے تو مُلک اور دنیا بھر میں اپنی عدلیہ اور دوسرے مُلکی اداروں کے خلاف کھلم کھلا محا ذ آرا ئی کا اعلان کردیا ہے اِن کے دما غ پر ”مجھے کیوں نکالا ؟ کا فو بیا سوار ہے، آج یہ سب کچھ بھول کراِسی فوبیا کو لے کر چل پڑے ہیں کہ میرے ساتھ نا انصافی ہو ئی ہے پا ناما لیکس کا معا ملہ تھا مگر مجھے اقا مہ پر نا اہل قراردے دیا گیا آج دنیا یہ بھی دیکھ رہی ہے کہ نواز شریف اینڈ فیملی قومی دولت کھا کر ڈکارکربھی کیسے آستینیں چڑھا کر پاکستان سے لے کر لندن و سعودی عرب اور دیگر ممالک تک یہ عدلیہ اور دیگر اداروں پر کھلی تنقید کرتے دِکھا ئی دے رہے ہیں۔
اگرچہ نوازشریف کی نا اہلی کے بعد اِن کے ہٹ دھرمی کے عنصر نے مُلک میں جمہوریت کی دیوی کو جہاں خطرات سے دوچارکردیا ہے تو وہیں ن لیگ کا اپنا وجود بھی ڈگمگارہا ہے اِس کے اندر سے بھی تبدیلی اور ما ئنس پلس ون فارمولے کی آوازیں شدت سے بلند ہورہی ہیں اور یہ ٹھیک ہے کہ اَب ن لیگ میں نواز شریف کی اہمیت وہ نہیں ہے جو نا اہلی کے فیصلے سے پہلے تھی ۔
تاہم اِس گو مگو صورتِ حال سے دوچار نوازشریف اور ن لیگ پھر بھی اِس پرڈٹ گئی ہے کہ اِن کے ساتھ ادارے ذیاتی کررہے ہیں یہ عوامی مینڈیٹ کی تو ہین ہے اور ما ئنس پلس ون کا فیصلہ عوام کرتے ہیںکوئی فردواحد کسی کو اپنی مرضی سے ما ئنس پلس نہیں کرسکتاہے ۔
آج نوازشریف اور ن لیگ والے کس عوام کی بات کررہے ہیں؟ اُس عوام کی جس کے خون پسینے کی کما ئی کواِن ہی لوگوں نے دیدہ دانستہ اپنی آف شور کمپنیوں کے قیام میں لگا دی ہے اور عوام کے بنیادی حقوق غضب کرکے اِس کی زندگی کی خوشیاں چھین کر اِسے مسا ئل اور طرح طرح کے بحرانوں میںجکڑدیا ہے۔
اَب یہ اِس پریشان حال عوام سے کیا توقع کرتے ہیں ؟کہ اگر 2018ءکے متوقعہ انتخابات ہو ئے تو یہ مجبور و بے کس عوام پھر نوازشریف کو اقتدار کی مسند پر بیٹھا دیں گے تو یہ نوازشریف اور ن لیگ والوں کی صریحاََ بھول اور خوش فہمی ہے اگلے انتخابات ویسے تو ممکن نہیں ہیں کہ یہ ہوں گے کیو ں کہ اِن قومی لٹیروں اور کرپٹ حکمرانوں اور سیاستدانوں اور اِن کے اِدھر اُدھر کے چیلے چپاٹوں نے ایسا کچھ چھوڑا ہی نہیں ہے کہ یہ محسوس ہو کہ اِن لوگوں کے ہو تے ہوئے پاکستان میں ا گلے سال انتخابات منعقد ہوں گے اور پھر یہی لوگ اقتدار سنبھال کر ایوانوں میں بیٹھ جا ئیں گے اور عوام کے حصے میں پھر سوا ئے کفِ افسوس اور لاچارگی کے کچھ نہیں آئے گا ۔
بہر حال ،کرپٹ عناصر میں سے کو ئی اِس گمان اورفراق میں نہ رہے کہ 2018ءکے انتخا بات سے قبل کسی تبدیلی کی کو ئی گنجا ئش نہیں ہے، آج جو لوگ ایسا کہہ رہے ہیںدراصل اِن ہی لوگوں نے تو 2018ءکے انتخا بات سے قبل تبدیلی کے اثار خود پیدا کردیئے ہیں اگر پھر بھی کسی کو راقم الحرف کے کہے پر یقین نہ آئے تو ایک مرتبہ تنہا ئی میں یہ لوگ اپنا محاسبہ ضرور کرلیں اِنہیں خود لگ پتہ جا ئے گا کہ اداروں سے محاذ آرا ئی کی فضاءپید ا کرکے تبدیلی کی گنجا ئش کی راہ متعین کرنے والے بھی یہی لوگ ہیں جنہوں نے اداروں سے محاذ آرا ئی کی راہ اختیار کرکے انتخا بات کو خطرے میں ڈالنے کے تمام حر بے استعمال کرنے کی ٹھا ن لی ہے۔
جبکہ اَب مُلک میں موجودہ گھمبیر ترین صورتِ حال اور گرما گرم سیاسی تصادم معاشی عدم استحکام اور عدلیہ و اسٹیبلشمنٹ سے تناو ¿ کے تناظر میں یہ بات یقینی ہے کہ سیاسی بازی گروں اور شاطر حکمرا نو ں سیاستدانوں اور کرپٹ ترین عناصر کے ہوتے ہوئے مُلک میں 2018ءکے انتخا بات سے قبل تبدیلی تو آئے گی اور یہ اِسی صورت میں ممکن ہے کہ مُلک کے طاقتور ادارے اِن کرپٹ عناصر کو گُدیوں سے دپوچ کر احتساب کے کٹہرے میں لا ئیں اور اِنہیں احتساب کے صاف و شفاف عمل سے گزاریں اورآئین و قا نون کے مطا بق مُلکی دولت لوٹنے والوں کو سزا ئیں دیں اور اِن کا سرزمین پاکستان سے صفایا کریں چا ہئے اِس کام میں جتناوقت بھی لگے مگر ضروری ہے کہ 2018ءسے پہلے اِس صورت میں ضرور تبدیلی لا ئی جا ئے۔
اِس سے بھی انکار نہیں ہے کہ اِس بار ن لیگ کا نوازشریف کی نا اہلی کے فیصلے کے بعد عدلیہ اور اسٹیپلشمنٹ سے محا ذ آرا ئی میں جارحیت کا عنصر نمایاں طور پر نظرآرہا ہے اِس کے اِس رویئے میںاداروں سے کھلم کھلا محاذآرا ئی کی ایک بڑی وجہ صرف یہی ہے کہ ن لیگ یہ سمجھتی ہے کہ اداروں کو حد سے تجاوز نہیں کرناچا ہئے اِنہیں ایک حد میں رہتے ہوئے صرف اُن ہی لوگوں کے خلاف کام کرناچا ہئے جن کے لئے یہ ادارے قا ئم کئے گئے ہیں اِن کا شرا فیہ کے خلاف اقدام کرنا اِن کی مقررہ کردہ حد اور ذمہ داریوں سے تجاوز کے مترادف ہے آج خود نوازشریف اور ن لیگ والے اِس نقطے پر پوری طرح متفق دِ کھا ئے دیتے ہیں کہ عدلیہ اور دیگر ادارے نوازشریف اور ن لیگ کے خلاف اپنے اختیارات کا بے جا استعمال کررہے ہیں(جبکہ انصاف تو سب کے لئے برابر کا درس دیتا ہے اور یہی اِنصاف کا تقاضہ ہے) جس کی نوازشریف اور ن لیگ اپنی فرینڈلی اپوزیشن پا کستان پیپلز پارٹی کو ملاکر ہر محاذ پر مقا بلہ کرے گی اور ثابت کرے گی کہ عدلیہ اور اسٹیپلشمنٹ سِول حکمرانواو رسیاستدانوں ( بالخصوص نوازشریف اور ن لیگ) کے خلاف طاقت کا استعمال کرکے مُلکی ترقی کی راہ میں روڑے آٹکا رہی ہے۔
حالانکہ ایسا نہیں ہے جیسا کہ آج نوازشریف اور ن لیگ والے عدلیہ اور مُلک کے دوسرے طاقتورترین اداروں سے متعلق سمجھ رہے ہیںاور اپنے جرم کی سزا کو غلط ثابت کرنے کے لئے دنیا بھر میں اپنی مظلومیت کا رونا رو کرجمہوری نظام کو ڈی ریل کرنے کے لئے دوسروں کو موقع فراہم کررہے ہیں آخر کو ئی کب تک نوازشریف اور ن لیگ والوں کی الزام تراشیاں برداشت کرے گا آخرجلد یا دیر ابھی نہیںتو کبھی نہ کبھی سا منے والے کی بھی برداشت کی حد ختم ہو گی اور پھر اِنہیں خود لگ پتہ جا ئے گا کہ 2018ءکے انتخا بات سے قبل تبدیلی کی گنجا ئش کیسے نکل گئی ہے جب کبھی کسی تبدیلی کی کوئی گنجا ئش نکلی تو اِس تبدیلی کے ذمہ دار بھی نوازشریف اور ن لیگ اور ممکنہ ش (شہباز) لیگ والے ہی ہوں گے۔(ختم شُد)