تحریر : شہزاد حسین بھٹی میاں محمد بخش قادری پنجابی زبان کے معروف شاعر تھے۔ انہیں رومی کشمیر کہا جاتا ہے۔آپ 1830ء بمطابق 1246ھ: کھڑی شریف کے ایک گاؤں چک ٹھاکرہ میر پور آزاد کشمیر میں پیدا ہوئے۔ آپ کا تعلق گجر فیملی سے ہے۔میاں محمد بخش کے والد کا نام میاں شمس الدین قادری جبکہ دادا کا میاں دین محمد قادری تھا ان کے آباؤاجدادچک بہرام ضلع گجرات سے ترک سکونت کر کے میر پور میں جا بسے۔ ان کا حسب نسب 4 پشتوں کے بعد پیرا شاہ غازی دمڑی والی سرکار سے جا ملتا ہے۔ نسباً آپ فاروقی ہیں سلسلہ نسب فاروق اعظم پر ختم ہوتا ہے ۔د ربار کھڑی شریف کی مسند کافی مدت تک آپ کے خاندان کے زیر تصرف رہی۔آپ نے ابتدائی تعلیم کھڑی کے قریب سموال کی دینی درسگاہ میں حاصل کی جہاں آپ کے استاد غلام حسین سموالوی تھے آپ نے بچپن میں ہی علوم ظاہری و باطنی کی تکمیل کی اور ابتداء ہی سے بزرگان دین سے فیوض و برکات حاصل کرنے کیلئے سیر و سیاحت کی کشمیر کے جنگلوں میں کئی ایک مجاہدے کئے شیخ احمد ولی کشمیری سے اخذ فیض کیا۔چکوتری شریف گئے جہاں دریائے چناب کے کنارے بابا جنگو شاہ سہروردی مجذوب سے ملاقات کی ان کی بیعت میاں غلام محمد کلروڑی شریف والوں سے تھی۔آپ کا سلسلہ طریقت قادری قلندری اور حجروی ہے۔آپ نے زندگی بھر شادی نہیں کی بلکہ تجردانہ زندگی بسر کی۔آپ کی وفات7 190ء بمطابق 1324ھ اپنے آبائی وطن کھڑی شریف ضلع میر پورمیں ہوئی اور وہاں پر ہی مزار بھی ہے۔
میاں محمد بخش کی شخصیت ایک ولی کامل اور صوفی بزرگ تھے آپ نے اپنے کلام میں سچے موتی اور ہیرے پروئے ہیں ایک ایک مصرعے میں دریا کو کوزے میں بند کر دیا ہے۔ آپ کی شاعری زبان زد عام ہے۔سیف الملوک آپ کی شاہکار نظم ہے۔ جس کا اصل نام سفر العشق ہے اور معروف نام سیف الملوک و بدیع الجمال ہے ۔آپ کی دیگر کتابوں میں،تحفہ میراں کرامات غوث اعظم، تحفہ رسولیہ معجزات جناب سرور کائنات، ہدایت المسلمین، گلزار فقیر، نیرنگ عشق، سخی خواص خان، سوہنی میہنوال، قصہ مرزا صاحباں، سی حرفی سسی پنوں، قصہ شیخ صنعان، نیرنگ شاہ منصور، تذکرہ مقیمی، پنج گنج جو سی حرفیوں کی کتاب ہے جس میں پانچ سی حرفیاں اور سی حرفی مقبول شامل ہے۔
آپکی شاعری خصوصاً سیف الملوک کے انداز بیاں سے متاثر ہو کرلوگوں نے آپکے کے اشعار کے ساتھ ہم وزن قافیے ردیف ملا کربے تہاشا اشعار آپ سے منسوب کردیئے جنہیںلوگوں کی اکثریت نہ صرف پڑھتی یا گاتی ہے بلکہ حوالے کے طور پر استعمال بھی کرتی ہے۔ انہی اشعار میں کچھ اشعارایسے بھی ہیںجنہیں ایک عام قاری یا شاعر جب سنتا یا دیکھتا ہے تو وہ معیوب اوروزن سے عاری دیکھائی دیتے ہیں۔انہی اشعار میں متن کی غلطیاں بھی پائی جاتی ہیں۔ پروفیسر سعید احمد نے حضرت میاں محمد بخش رح سمیت دیگر عظیم صوفی دانش پر متعدد کتابیں اور ضمیے شائع کیے ہیں۔پروفیسر سعید احمد نے دربار عالیہ کھڑی شریف سے صاحبزادہ میاں محمد ساجد، میاں ریاض اور گجرات سے شہباز علی قادری اور دیگر کے ہمراہ ملکر ان اشعار کو اکٹھا کیا جو حضرت میاں محمد بخش رح کی کسی پنجابی کتاب میں شامل نہیں لیکن وہ انہی کے نام سے منسوب کیے جاتے ہیں۔حالانکہ آپ نے اپنی شاعری کی سترہ کتابوں میںکم و بیش اڑھائی ہزار اشعار لکھے ہیں جبکہ آپکی شہرہ آفاق کتاب سفرالعشق (المعروف سیف الملوک) میں نو ہزار دو سو انچاس اشعارہیں جو ایک سے بڑھ کر ایک اپنی مثال ہیں۔
پروفیسر سعید احمد عقل و فہم سے عاری افراد کی اصلاح کے لیے اس ضمن میں ایک ضمیہ” جواہر حضرت میاں محمد بخش رح” بھی منصہ شہود پر لائے ہیں تاکہ میاںمحمد بخش سے منسوب اشعار کی نفی کی جاسکے اور عام لوگوں ، نعت خواں اور گلو کاروں کو یہ پیغام دیا جا سکے کہ وہ وہی اشعار پڑھیں جو میاں محمد بخش رح کی مستند کتابوں میں موجود ہیں۔یہی ایک سچے فقیر ولیء کامل کے ساتھ سچی محبت اورانصاف ہو گا۔
میاں محمد بخش سے منسوب شاعری کی کچھ مثالیں۔ باپ مرے سرننگا ہوندا، ویر مرے کنڈ خالی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ماواں باہجھ محمد بخشا کون کرے رکھوالی آ دردا وچ خالی خانے پا وچ دخل مکاناں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔محبوباں نوںوداع کریندیاں مشکل بچدیاں جاناں بے شرمی دے حلوے نالوں ساگ جماں دا چنگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بے وفاسجن دے نالوں سنگ چُوہڑے دا چنگا پاٹا چولا لیرولیر ، سی لیندا اے درزی۔۔۔۔۔۔ دل دا محرم کوئی نہ ملیا جو ملیا سو غرضی ٹہا دے مسجد مندر ٹہادے جو کجھ ٹہیندا۔۔۔۔۔۔اک بندیاں دا دل نہ ٹہاویں ربّ دلاں وچ رہندا حرص طمع دے گھوڑے چڑھیوں، ڈھلیاں چھڈ لگاماں۔۔۔۔۔۔ گھرنوں واگاں موڑ اسوارا ، سر تے پے گئیاں شاماں گئی جوانی آیا بڑھاپا پیاں سب پیڑاں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہن کس کم محمد بخشا سونف جوائن ہریڑاں