اے میرے واعظِ خوش بخت تیرے ہونٹوں سے مجھ کو یہ درد کے قصے نہیں اچھے لگتے تیرے کردار کی دورنگی سے نفرت ہے مجھے یہ تیرے عجز کے دعوے نہیں اچھے لگتے یہ گناہوں کی، ثوابوں کی ، تجارت کیا ہے؟ تیرے اس وعظ و نصیحت کی حقیقت کیا ہے؟ بول کس نِرخ پہ بک جاتی ہے گفتار تیری! تیرے بے فیض خیالات کی قیمت کیا ہے؟ نسلِ انساں کو قناعت کا درس دیتے ہو اور خود اپنی ضرورت سے سِوا لیتے ہو تیرے بے ربط خیالات پہ رونا آئے ایسے فرسودہ نصابات پہ رونا آئے اپنے بے رحم سوالات کے لہجے کی قسم! تیرے کمزور جوابات پہ رونا آئے پستیء لفظ و معانی پہ ترس آتا ہے تیری اِس شعلہ بیانی پہ ترس آتا ہے اپنی پوشاک کے زرناب کنارے نہ دکھا مجھ کو یہ اطلس و کمخواب کے دھارے نہ دکھا میں تیرے من کے اندھیروں کا شناسا ٹھہرا مجھ کو یہ چاند ،یہ سورج، یہ ستارے نہ دکھا زہر لگتی ہے مجھے اب یہ ریاکاری تیری خود تیری زِیست پہ بھاری ہے اداکاری تیری