تحریر : رائو عمران سلیمان 9 نومبر 1877کو سیالکوٹ میں پیدا ہونے والے علامہ اقبال کی دور اندیشی اور درویشیوں کے چرچے ایسے ہی تاریخ کے صفحات پر موجود نہیں ہیں بلکہ انہوں نے جس خاندان میں آنکھ کھولی وہ گھرانہ خود بھی اپنی بزرگی اور پارسائی کی وجہ سے بہت مشہور تھا،علامہ اقبال کے والد شیخ نورمحمد پانچ وقت کے باجماعت نمازی اور دین دار آدمی تھے،جو اللہ اور اس کے رسول ۖ کی محبت کو ہی اپنا سب کچھ سمجھتے تھے ، ، علا مہ اقبال کی والدہ امام بی بی ایک نہایت ہی نیک سیرت اور دیانت دار خاتون تھی جس کے والدین اس قدر خوف خدا ور عشق رسول سے سرشار ہو تو اس کی تربیت و پرورش کا اثر اولاد پر کس قدر اثرانداز ہوسکتاہے اس کی مثال علامہ اقبال کی مکمل زندگی کو پڑھنے اور سمجھنے کے بعد ہی لگایا جاسکتاہے ۔علامہ اقبال کی پروش سے متعلق ایک واقعہ بیان کرتا چلو کہ علامہ اقبال جب پانچ برس کے ہوئے تو ان کے والد محترم نے انہیں دینی و دنیاوی تعلیم کے لیے سیالکوٹ میں ہی محلہ شوالہ کے ایک مدرسے میں داخل کروادیا۔
ان دنوں سیالکوٹ میں ایک عالم دین میر حسن شاہ کا بہت نام تھا ایک روز میر حسن شاہ مدرسے کے خطیب غلام حسین سے ملاقات کی نیت سے آئے تو سینکڑوں بچوں میں ان کی نظر علامہ اقبال پر پڑی توانہوںنے فوراً ہی بھانپ لیا کہ یہ بچہ ایک د ن بڑا ہوکر بہت نام پیدا کریگا اور بہت بڑا آدمی کہلائے گا۔انہوںنے مدرسے کے خطیب سے علامہ اقبال کے والد کا پتہ معلوم کیا اور ان سے ملاقات کرنے پہنچ گئے اور ان سے یوں مخاطب ہوئے کہ آپ اقبال کو میرے مکتب میں داخل کروادیں۔علاقہ اقبال کے والد نے میر حسن کی درخواست کو اپنی خوش نصیبی سمجھا اور اپنے لخت جگر کو عالم دین میرحسن شاہ کی شاگردی میں دے دیا۔یہ وہ دور تھا جب اقبال کی دینی تعلیم کا آغاز ہوا ،دنیاوی علوم میں دسترس کے لیے انہوںنے جب 1893میں میٹرک کا امتحان پاس کیا تو اس کے دوسال بعد 1895 میں گورنمنٹ کالج لاہور میں داخلہ لے لیا،جبکہ 1897میں انہوںنے پنجاب یونیورسٹی سے بی اے کا امتحان پاس کیا،بعدازاں انہوںنے ایم اے فلسفے کے لیے اپنی تعلیم کو جاری رکھا۔18ویں صدی کے خاتمے کے بعد اعلیٰ تعلیم کی غرض سے علامہ اقبال نے یورپ کا سفر کرنے کا فیصلہ کیا یکم ستمبر1905کو یورپ روانہ ہوگئے جہاں انہوںنے لندن کے ایک معروف لنکن کالج سے قانون کی ڈگری حاصل کی اور مزید علمی ڈگریوں کے حصول کے جرمنی کا سفر کیا،ویسے تو علامہ اقبال نے ایک استاد کی زندگی کا سفر لاہور میں ہی شروع کردیا تھاجب انہوںنے فلسفہ میں ایم اے کیا اور اپنے ہی کالج میں عربی کے استاد مقرر ہوئے ، یہ برصغیر میں انگریزوں اور ہندئوں کا دور تھا مسلمان ان دونوں سامراجی قوتوں میں بری طرح سے پس رہا تھا۔
اعلی ٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد علامہ اقبال جب وطن لوٹے تو اللہ تعالیٰ نے ان سے مسلمانوں کی بھلائی کے لیے بہت سے عظیم کاموں کو لینا تھا۔قیام پاکستان سے قبل ہندوستان کے کرتا دھرتائوں نے یہ فیصلہ کرلیا تھا کہ کسی نہ کسی طرح سے بس مسلمانوں کی تہذیب وتمدن کو بھارت کی سرزمین سے ختم کرنا ہے جس کے باعث ان کے پاس سوائے تشدد کے کوئی راستہ باقی نہیں بچتا تھا جبکہ مسلمانوں کے پاس کوئی ایسی جگہ نہیں تھی کہ جہاں وہ ہندئوں اور انگریزوں کے عتاب سے بچ سکیں مسلمانوں کو اچھوت بنادیا گیا ،ا ن کے کھانے پینے کاروبار کرنے پر پابندیاں لگائی گئی ،مسلمانوں کی عبادتوں کا مذاق بنایا جانے لگااور انہیں جبراً مذہب کی تبدیلی پر اکسایا گیا جس کے باعث ان کی عبادتوں پر بھی پابندیاں عائد کی گئی مساجد کو نذرآتش کیا گیا، روز بروز تیز ہوتے ان واقعات کے باعث مسلمانوں کے دلو ں میں ایک الگ وطن کا جذبہ پید ا ہوا اور اس جزبے کی بیداری میں سب سے اہم کردار علامہ اقبال نے ہی ادا کیا جب علامہ اقبال نے اپنی شاعری اور سیاسی جدوجہد کے ذریعے مسلمانوں کے لیے ایک الگ وطن اور اس کے تشخص کو ابھارا ۔ایک وقت تھا کہ جب مسلمانوں کے لیے ہمدردی کا جزبہ رکھنے والے قائداعظم ہندوستان کی سیاست سے بددل ہوئے تو انہیں انگلستان سے واپس لانے والے علامہ اقبال ہی تھے ،انہوںنے مسلمانوں کی حالت زار پر مبنی خطوط سے قائداعظم کو انگلستان سے واپسی پر مجبور کردیا تھا۔
گو کہ علامہ اقبال کو سیاست میں کوئی گہری دلچسپی نہیں تھی مگر جہاں جہاں مسلمانوں کے لیے جدوجہد کا مسئلہ کھڑا ہوتا وہ سب سے آگے ہی دکھائی دیتے ،یہ وجہ تھی کہ انہوںنے دوستوں کے اصرار پر 1926میں سیاست میں حصہ لیا اس دوران انہیں مجلس قانو ن ساز اسمبلی کا ممبر منتخب کیا گیا۔دوستوں شاعر مشرق علامہ اقبال نے مسلمانو ں کے لیے الگ وطن کا جوخواب دیکھا تھا اسے تو اللہ تعالیٰ نے قائداعظم کی قیادت میںپورا کردیا تھا مگراس پاکستان میں آج تک انصاف ،تعلیم ، صحت ،معیشت سمیت ایک بھی شعبہ ان خواب کے تعبیروںپر پورا نہیں اتر سکا ہے ۔ایک الگ وطن کی جدوجہد میںعلامہ اقبال یہ سمجھتے تھے کہ جو اسلام میں معاشرتی اور معاشی برابری کی بات کی گئی ہے وہ مسلمانوں کی مذہبی آزادی کے ساتھ پاکستان میں واضح طور پر نظر آئے گی ۔ وہ سمجھتے تھے کہ اس پاکستان میں عوام کو صحت اور تعلیم کے یکساں مواقع میسر ہونگے مسلمانوں کو انصاف ان کے گھروں کی دہلیز پر ملے گا،ہر طرف قانون کی حکمرانی ہوگی۔ لیکن آج اس ملک کا ہر شہری میری اس بات پر ضروراتفاق کریگا کہ آج کے اس پاکستان میں جو علامہ اقبال نے سوچا تھا ایسا ہرگز نہیں ہورہاہے۔ آج ملک میں لوگ انصاف کے لیے سالوں سے دربدر ہیں عدالتیں تو لگتی ہیں مگر فیصلہ آنے تک لوگوں کے گھر بار بک جاتے ہیں یہ اور بات ہے کہ فیصلہ ان کے حق میں آئے یا نہ آئے ؟۔ملک میں اقتصادی نہ ہمواری موجود ہے جو کہ کسی بھی روشن اور ترقی یافتہ ملک کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ سمجھا جاتا ہے ملک میں غربااور مساکین کو بنیادی سہولتوں سے بلکل ہی محروم کردیا گیا ہے جبکہ ایک چھوٹا سا طبقہ سیاسی اقتدار اور ملک کے مالی وسائل پر کئی دہائیوں سے قابض ہے دویا تین خاندانوں پر مشتعمل یہ طبقہ باریوں کی صورت میں اس ملک کے خون پسینے کی کمائی کولوٹنے آتاہے اور پھر دوسرے کو باری دی جاتی ہے۔
یہ لوگ اپنے خاندانوں اور مداح سراہوں کو نوازتے ہیں اس طبقے کی عوامی فلاح کی جانب توجہ برائے نام ہے ۔یہ وہ خواب نہیں تھا جو اقبال کا تصور تھا جو مسلمانوں کے لیے الگ وطن کا خواب تھا جس کے لیے اس قوم کے بچوں اور بزرگوں نے قربانیاں دی ۔ سوچنے والی بات یہ ہے کہ کیا یہ ہی وہ پاکستان ہے جس کے حصول کے لیے مسلمان خواتین کی عصمتیں تار تار ہوئی ، مائوں کے سامنے معصوم بچوں کو زندہ کنووں میں ڈالا گیا۔ آج اس ملک میں جہاں عظیم والشان پلازے بنتے ہیں اوربڑی بڑی کوٹھیاں تعمیر کی جاتی ہیں وہاں کروڑوں کی آبادی کے اس ملک میں لاکھوں لوگ درختوں کے سائے ،فٹ پاتھوںاور انڈر پاسزز میں سورہے ہوتے ہیںیہ وہ لوگ ہیں جو بازاروں اورگاڑیوں کے آگے کھڑے ہوکر بھیک مانگ کر کھاتے ہیں ، تھر کے علاقوں میں غریب والدین کے بچوں کی ہلاکتوں سے کون واقف نہیں ہے ، یہ زیادتیاں تو اس زمانے میں بھی ہوا کرتی تھی جب پاکستان نہیں بنا تھا جب اقبال نے ایک الگ وطن کا خواب نہیں دیکھا تھا۔ لہذا میں سمجھتا ہوں کہ ان تمام ایشوزکو حل کرنا ہی اقبال کے خواب کو پورا کرنے کے مترادف ہے۔