تحریر : منظور احمد فریدی اللہ کریم جل شانہ کی حمد وثناء ذات کبریا جناب محمد رسول اللہۖ پر درودسلام کے کروڑ ہا نذرانے پیش کرنے کے بعد راقم نے داتا گنج بخش سید علی ہجویری کے 974 ویں عرس کے موقع پر زیر نظر چند سطور ترتیب دی ہیں مقصد ہدیہ تبریک جناب کی خدمت میں اور سیرت کے چند پہلووں پر نظر سے قارئین کرام کو آگاہی ہے اللہ کریم قبول فرمائے آمین۔
اللہ کریم نے جب حضرت آدم علیہ السلام کو تخلیق فرمانے کا ارادہ ظاہر فرمایا تو فرشتوں سے مشاور ت فرمائی فرشتوں نے اللہ کے اس ارادہ کے سامنے آدم کی تخلیق کو اچھا نہ جانا فرشتوں نے کہا کہ وہ یعنی آدم زمین پر فساد کرے گا خون بہائے گا اور ہم تیری حمد وثناء کے لیے کافی ہیں تو اللہ کریم نے ارشاد فرمایا کہ جو میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے پھر جب اللہ کریم نے جناب آدم علیہ السلام کو شکل انسان میں احسن تقویم کی وجیہہ و جمیل صورت میں بلکہ اپنی صورت دے کر مکمل فرما لیا تو فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو سب سجدہ میں گر گئے سوائے ابلیس کے تو اللہ نے اس معلم الملکوت شیطان ابلیس لعین کو راندہ درگاہ فرمایا اس وقت ابلیس نے اللہ کے حکم کی بجا آوری کرتے ہوئے حیات ابدی مانگ لی اور ساتھ اللہ سے یہ وعدہ کیا کہ میں تیرے اس بندے کو گمراہ کروں گا تو اللہ نے فرمایا کہ تو لاکھ جتن کرتا پھر جو میرے بندے ہیں وہ میرے ہی رہینگے ہر آزمائش میں پورے اترینگے اور میری ناشکری کا حرف شکایت کبھی انکی زبانوں پر نہیں آئیگا انہی نفوس قدسیہ کے متعلق اللہ نے اس وقت ہی فرما دیا کہ وہ تو میرے بندے ہیں۔
پھر اولاد آدم کی ہدائت کے لیے انبیاء کرام کی ایک کثیر تعداد کو مبعوث فرمایا تاکہ وہ شیطان کے جال میں نہ آسکیں اپنے محبوب اور امام الانبیاء جناب محمد رسول اللہ ۖ پر نبوت کا سلسلہ ختم فرما کر اس مشن اور مقصد کے لیے حضور کی امت سے اپنے برگزیدہ بندوں کو چن کر اسلام کی ترویج اور تبلیغ کا سلسلہ جاری و ساری رکھا جو تا قیامت جاری رہے گا انہی برگزیدہ ہستیوں میں سے ایک نام حضور داتا گنج بخش کا بھی آپ اپنے شیخ پیر و مرشد کے حکم پر دعوت اسلام کو عام کرنے کے لیے لاہور تشریف لائے اور جہاں آج آپکا مزار منبع فیوض و برکات موجود ہے اسی علاقہ میں آپ نے قیام فرمایا آپ اپنی شہر آفاق کتاب کشف المحجوب میں لاہور آنے کے واقعہ کو آداب مرشد کے باب میں یوں بیان فرماتے ہیں ،،، میں نے پوری زندگی اپنے شیخ کے سامنے بولنے کی جسارت نہ کی کبھی بھی کوئی مسئلہ درپیش ہوا تو شیخ کے سامنے بیان کرنے کی ضرورت نہ پڑتی تھی بلکہ وہ کمال دستگیری فرماتے ہوئے خود ہی حل فرما دیا کرتے ایک دن جب میرے شیخ نے فرمایا کہ علی تم لاہور جا کر اسے اپنا مسکن بنائو اور اللہ کے دین کی تبلیغ و اشاعت کرو تو بے ساختہ میری زبان سے نکلا کہ حضور وہاں میرے پیر بھائی میراں حسین زنجانی جو ہیں ،،،تو مرشد نے حکم دیا کہ جو کہا گیاہے اس پر عمل کرو آپ فرماتے ہیں کہ میں سفر طے کرتا ہوا جب لاہور پہنچا تو حضرت میراں حسین زنجانی کا جنازہ گھر سے اٹھایا جارہا تھا میں اپنے بولنے پر اتنا شرمندہ ہوا کہ اسکے بعد توبہ کرلی ۔
لاہور میں ہندو جوگیوں کا کفر اور دوسرے شعبدہ بازوں کے ساتھ جو آپکے مکالمات ہوئے وہ آج بھی زبان خاص و عام پہ ہیں اللہ اپنے برگزیدہ بندوں کو جو کرامات عطا فرما ئی ہیں ان میں سے بہت سی کرامات آپ سے بھی ظاہر ہوئیں مگر اس کالم میں قارئین کرام کو آپکی دو کرامات بیان کرکے اجازت چاہونگا آپ نے اپنے آستانہ کے قریب سنت نبوی ۖ کے مطابق ایک مسجد تعمیر فرمائی جس میں باقاعدگی سے اذان نماز کا اہتمام تھا دوسرے گروہ نے لوگوں میں یہ بات عام کردی کہ داتا صاحب کی مسجد کا قبلہ درست نہ ہے یعنی مسجد کو تعمیر کرتے وقت قبلہ کا تعین نہ کیا گیا ہے اور اگر نماز کے وقت منہ قبلہ کی طرف نہیں ہوتا بات نکلی تو دور تک جانے کے مترادف آپ تک پہنچی مریدین نے عرض کیا کہ حضور لوگ کہتے ہیں کہ ہماری مسجد کا رخ قبلہ کی طرف نہیں ہے آپ نے مریدین کو حکم دیا کہ علاقہ میں منادی کروا دو کہ جس نے سیدھا قبلہ کی طرف بنہ کرکے نماز پڑھنی ہو آج مغرب کی نماز ہمارے ساتھ پڑھے منادی کروا دی گئی لوگوں کا ایک جم غفیر جمع ہوگیا آپ نے اپنی تعمیر کردہ مسجد میں خود امامت فرمائی تاریخ گواہ ہے کہ تکبیر تحریمہ کے بعد تمام نمازی صحن حرم میں کھڑے تھے اور بیت اللہ اپنی اصلی مجسم صورت میں سب کے سامنے تھا اس نماز کے بعد آپکی مخالفت کرنے والے ہزاروں لوگ تائب ہوئے اور آپ سے بیعت حاصل کرکے مقام ولایت پر فائض ہوئے۔
دوسری کرامت یہ کہ سلسلہ چشتیہ کے بانی عطائے رسول نائب رسول خواجہ خواجگان سید معین الدین چشتی اجمیری کا حجرہ مبارک آج بھی آپ داتا حضور کے مزار پر انوار کے دروازہ کے سامنے موجود ہے جہاں بیٹھ کر آپ نے داتا گنج بخش سے فیض حاصل کیا حضرت معین وہ ولی ہیں جنہیں خود رسول خدا نے اسلام کی ترویج و اشاعت کے لیے ہندوستان بھیجا اللہ کے برگزیدہ بندوں اولیاء کی جماعت میں آپکو ایک خاص مقام حاصل ہے آپ بھی حضور داتا گنج بخش سے فیض لینے ادھر بیٹھے رہے آج وہ سوال بھی نظر قارئین ہے جس کا جواب لینے ایک کامل ولی دوسرے ولی کے دروازہ کے سامنے چالیس دن بیٹھا رہا میرے شیخ میرے استاد شریعت وطریقت میرے ملجا و ماویٰ سید نیاز حسین قادری فرماتے ہیں کہ حضرت معین الدین نے داتا علی ہجویری کے سامنے یہ سوال رکھا کہ،،،انسان مکمل کب ہوتا ہے ،،، اور چالیس دن تک جواب کے انتظار میں اللہ کے حضور گڑ گڑاتے رہے چالیس دن کے بعد داتا علی ہجویری نے جواب ارشاد فرمایا،،، معین الدین جب زمین جتنی برادشت اور سمندر جتنی سخاوت اپنے اندر پیدا کرلو تب اپنے آپکو مکمل سمجھنا ،،، سبحان اللہ یہ جواب سن کر حضرت خواجہ غریب نواز بے ساختہ کہہ اٹھے گنج بخش فیض عالم مظہر نور خدا ۔ناقصاں را پیر کالمل کاملاں را راہنماء یہ شعر آج بھی جناب کے مزار پر لکھا ہوا ہے۔
اللہ کے ان بندوں کی سیرت کو مکمل بیان کرنے کیلیے پوری زندگی بھی کم ہے اختصار کے ساتھ ایک جملہ میں اختتام کی طرف آتا ہوں دریائے راوی کے ایک کنارے پر اس بادشاہ کا مقبرہ ہے جس نے پورے ہندوستان پر حکومت کی اور عدل کی اعلیٰ مثال بھی قائم کی دنیا سے رخصت ہوا تو وصیت کے مطابق اپنے لگوائے ہوئے باغ دل کشا میں دفن ہو ا آج اس کے مزار پر بیرون ملک سے آنے والے سیاح جاکر تصاویر تو بنوا لیتے ہیں مگر فاتحہ درود نہ پھول اسی دریا کے اس پار ایک فقیر مگر بادشاہ گر داتا گنج بخش کا مزار پر انوار ہے جہاں دن رات کے چوبیس گھنٹوں میں کوئی ایک پل ایسا نہیں جب قرآن فاتحہ درود سلام نہ پڑھا جارہا ہو اور داتا صاحب کے لنگر پہ لاہور کے علاوہ پورے پاکستان سے کتنے گھرانے پل رہے ہیں اس بات سے ہر کوئی واقف ہے اللہ کریم ہم پر اپنے ان دوستوں کے فیوض و برکات کی بارش ابد الآباد تک برساتا رہے اور انکی زندگی کو مشعل راہ بنائے رکھنے کی توفیق عنایت فرمائے آمین والسلام۔