اسلام آباد (جیوڈیسک) پاکستان کے سابق وزیراعظم نواز شریف نےکہا ہے کہ جج صاحبان بغض سے بھرے بیٹھے ہیں اور ان کا غصہ ان کے الفاظ میں ظاہر ہورہا ہے۔
پاناما کیس کے فیصلے پر نظر ثانی سے متعلق شریف خاندان کی اپیلیں مسترد کیے جانے کے بارے میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے منگل کی شام اپنا تفصیلی فیصلہ جاری کیا تھا۔
بدھ کو اسلام آباد کی احتساب عدالت میں پیشی کے موقع پر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے نواز شریف نے فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا، “کل اُن کا بغض، اُن کا غصہ اُن کے الفاظ میں آ گیا ہے۔۔۔ آپ نے دیکھا ہے کہ جو الفاظ آئے ہیں، وہ بغض الفاظ میں ڈھل گیا ہے۔”
سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ یہ سارا بغض، غصہ اور سارے الفاظ تاریخ کا سیاہ باب بنیں گے۔
صحافیوں سے گفتگو میں نواز شریف کا مزید کہنا تھا، “کئی سیاہ اوراق لکھے گئے ہیں ہماری عدلیہ کی طرف سے جب بھی کوئی ڈکٹیٹر آئے ہیں، یہ جو فیصلہ ہے سیاہ حروف کے ساتھ لکھا جائے گا تاریخ میں۔”
عدالت عظمٰی کے تفصیلی فیصلے پر نواز شریف کی یہ پہلی براہِ راست کڑی تنقید تھی۔
پاکستان کی عدالت عظمٰی نے پاناما کیس کے خلاف سابق وزیراعظم نواز شریف، اُن کے بچوں اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی طرف سے دائر نظرثانی کی درخواستوں کو مسترد کیے جانے پر اپنا تفصیلی فیصلہ بدھ کو جاری کیا تھا۔
سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ نواز شریف کی طرف سے جھوٹا بیانِ حلفی دیے جانے کے معاملے کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اور اُن کی نا اہلی کے حوالے سے حقائق غیر متنازع تھے۔
سپریم کورٹ نے ستمبر میں پاناما پیپرز کیس کے فیصلے کے خلاف دائر نظرِ ثانی کی تمام درخواستوں کو خارج کرتے ہوئے سابق وزیرِاعظم نواز شریف کی نااہلی اور ان کے اور ان کے بچوں کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کا فیصلہ برقرار رکھا تھا۔
تئیس صفحات پر مشتمل فیصلے میں کہا گیا ہے کہ پاناما دستاویزات سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے میں کسی ایسی غلطی کی نشاندہی نہیں کی گئی جس پر نظر ِثانی کی جا سکے۔
تفصیلی فیصلے میں یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ ٹرائل کورٹ شواہد کو سامنے رکھتے ہوئے معاملے پر حقائق کے مطابق اپنا فیصلہ دے سکتی ہے اور وہ سپریم کورٹ کی طرف سے دی گئی آبزرویشن کی پابند نہیں۔
انگریزی زبان میں تحریر اس فیصلے کے متن میں اردو میں ایک شعر بھی تحریر کیا گیا ہے،
تو ادھر اُدھر کی نہ بات کر یہ بتا کہ قافلہ کیوں لٹا مجھے راہزنوں سے گلہ نہیں تیری رہبری کا سوال ہے
اس شعر کے بارے میں وزیرِ مملکت برائے اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلے میں ایک ’’قافلے‘‘ کا بھی ذکر آیا۔
ان کے بقول، “نظامِ عدالت کا بھی ایک قافلہ تاریخ میں لٹا تھا۔۔۔ اور وہ تب لٹا تھا جب نظامِ عدل آمریت کی جیب کی گھڑی اور ہاتھ کی چھڑی بن گیا تھا۔”
معروف ماہر قانون ایس ایم ظفر نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا ہے کہ اس طرح کی تنقید کے بجائے نواز شریف کو اپنے خلاف قائم مقدمات پر قانونی جنگ لڑنی چاہیے۔
’’اُنھیں اس حد تک دور جانے کی ضرورت مجھے دکھائی نہیں دیتی۔۔۔۔ لازم نہیں کہ اُن کے حالات ہمیشہ بگڑے رہیں۔ ورنہ وہ بند گلی میں اپنے آپ کو لے جا رہے ہیں، جس کا نتیجہ کوئی دھماکا ہی دکھائی دیتا ہے۔‘‘
اُن کا کہنا تھا کہ اس طرح کے بیانات سے اختلافات بڑھیں گے، جس کے منفی اثرات ملک کی معیشت اور اداروں کے درمیان تعلقات پر بھی پڑیں گے۔