دل تیرے دردِ محبت میں گرفتار بھی ہے اور اِس غم سے رہائی کا طلبگار بھی ہے تیرے ہر حکم کی تعمیل ضروری تو نہیں ہاں مجھے تیری کِسی بات سے اِنکار بھی ہے ایک اِسرار کہ اب تک نہ کھُلا ہے تجھ پر ایک منظر تیری بِینائی کے اُس پار بھی ہے ہم کہ جِس شخص کے ارمانوں میں برباد ہوئے کیا اُسے حالِ پریشاں سے سروکار بھی ہے جو تیری بزمِ مسرت کا بھرم رکھتے ہیں زندگی اُن کے لئے باعثِ آزار بھی ہے کیا کوئی درس محبت کا بھی دیتا ہے یہاں مکتبوں میں کوئی رعنائیِ افکار بھی ہے جس محبت نے بہت دِل ہے دکھایا زریں وہ محبت ہی میرے ظرف کا معیار بھی ہے