تحریر : ممتاز ملک. پیرس ڈیرہ اسماعیل خان میں سولہ سالہ لڑکی کو برہنہ کر کے گلیوں میں گھمایا گیا. کسی ارباب اختیار کے ہاں پر جوں تک نہ رینگی. پھر کیا ہوا کے کلچر نے ہمیں بے غیرتی کی حد تک بے حس کر دیا ہے۔
میں حیران پریشان ہوں کہ یہ اور اس جیسے بےشمار جرائم ملک کے کسی بھی علاقے میں پو رہے ہیں آج تک کسی بھی مجرم کو آج تک کسی مرد نے ہی کیا کسی ملا نے عالم نے بھی نہ سولی چڑہایا نہ ہی اس کی موت کا مطالبہ کیا . درپردہ اس لڑکی یا عورت کا ننگا جسم ہر مرد کو کوئی نہ کوئی شیطانی مزا دے ہی رہا ہو گا نا….. ہر ایک دیکھنے والے سننے والے مرد نے حسب توفیق اس عورت کی آبرو ریزی میں اپنا حصہ ڈالا کسی نے اس لڑکی کیساتھ ہاتھ سے زنا کیا۔
کسی نے آنکھ سے زنا کیا اور جس کی پہنچ اس کی جسم تک نہ ہوئی اس نے اس کے ذکر سے ایک دوسرے کو آنکھ مار کر زبان اپنے ہونٹوں پر پھیر کر اس زنا کا چٹخارہ لیکر اپنی شیطانی روح کو قرار پہنچایا …. سبھی شیطان ہو چکے ہیں کیا ؟ کوئی غیرت مند مرد نہیں بچا ہمارے معاشرے میں جو ایسے سوروں کو سولی چڑہا کر دہائیوں تک عورت کو اس کی مرضی کے بنا چھونے یا چھونے کی خواہش کرنے والوں کو نشان عبرت بنا سکے ؟ کیا واقعی کوئی نہیں؟؟؟؟؟ یا اسوقت تک کوئی نہیں ..جب تک آپ ارباب اختیار کی کوئی اپنی بیٹی لوٹ نہ لی جائے۔
اگر اسطرح اس شرط پے اس معاشرت میں یہ جرم رک سکتا ہے. عورت کا حسب توفیق و قدرت زنا رک سکتا ہے .تو خدا کرے ان بااختیار لوگوں کی بیٹیوں پر یہ دن جلد ہی آ جائے تاکہ اسے بھی کسی عام عورت کی عزت کی قیمت کا احساس ہو سکے . اسے معلوم ہو سکے کہ اللہ نے بہت سی چیزیں بھلا رنگ و نسل و مذہب ہر انسان کو ایک سی عطا کی ہیں ہر انسان کی پیدائش ایک ہی طرح رکھی گئی ہر انسان دنیا میں روتے ہوئے پیدا ہوتا ہے۔
ہر انسان کی رگوں میں خون کا رنگ ایک سا رکھا گیا ہر انسان کی جسم دل اور دماغ کے کام ایک سے رکھے گئے ہر انسان کے کفن کا رنگ ایک سا رکھا گیا ہر انسان کی کی عزت اور عزت نفس ایک ہی سی رکھی گئی ہے ہر انسان کے آنسوؤں کا رنگ ایک سا رکھا گیا ہے ہر انسان کے لیئے موت لازم اور ایک سی رکھی گئی ہے ہر انسان کی پیٹ کی بھوک ایک سی رکھی گئی ہے۔
ہر انسان کے کھانے کو.منہ کی ضرورت اور سمجھ ایک سی رکھی گئی ہےپھر کیا بات ہے ہم انہیں خانوں میں بانٹ کر کم اور زیادہ کا دعوی کیسے کر سکتے ہیں . شاید غیرت کا فرق ہے یہ پیمانہ اللہ نے ہر انسان میں اس کی اوقات کے حساب سے رکھا ہے . اور جس معاشرے میں عورت کو ننگا کر کے اپنے علاقے میں گھمانے والا مونچھوں پر تاؤ دیکر زندہ رہ سکتا ہے اس علاقے کے ہر مرد کو پہلی فرصت میں اپنا نام ہیجڑوں کی فہرست میں درج کروا لینا چاہیئے۔