تحریر : قادر خان یوسف زئی اس وقت سعوی عرب میں تسلسل کے ساتھ پیش آنے والے واقعات نے دنیا عالم کی خصوصی توجہ حاصل کرلی ہے ۔ سعودی شہزادوں ، وزرا ء اور ارب پتی شخصیت شہزادہ الولید بن طلال کی گرفتاری نے سعودی عوام سمیت پوری دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا ہے ۔ سعودی عوام اوور سعودی عرب کو مضبوط دیکھنے والے سعودی اقدامات کی تعریف کرتے ہیں کہ سعودی عرب کی جانب سے اصلاحات کے نام پرولی عہدمحمد بن سیلمان جو کچھ بھی کررہے ہیں اس سے سعودی عرب مزید مضبوط ہوگا ۔ ناقدین کا یہ بھی کہنا ہے کہ 32برس کے محمد بن سیلمان ریاست کو اپنے مکمل کنٹرول کرنے کیلئے طے شدہ منصوبے پر کام کررہے ہیں ۔ ان کے نزدیک شہزادہ الولید بن طلال سمیت اہم شخصیات کی احتساب کے نام پر گرفتاریاں اسی منصوبے کا حصہ ہیں۔
محمد بن سلیمان سعودی عرب کے ولی عہد ہیں اور مستقبل میں سعودی عرب کو اپنے ویژن کے مطابق ڈھلتا دیکھنا چاہتے ہیں۔سعودی فرماں روا خادم حرمین شریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے اپنے فرمان میں کہا تھا کہ انصاف اور عدل کا نظام ہر چھوٹے اور بڑے پر نافذ ہو گا اور اس سلسلے میں کسی جانب سے ملامت کی پروا نہیں کی جائے گی۔ ہم اللہ رب العزت اور پھر اپنے عوام کے سامنے اس بھاری ذمے داری کے حوالے سے جواب دہ ہیں۔ اللہ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا ہے کہ ”تحقیق اللہ زمین میں فساد پھیلانے والوں کو پسند نہیں کرتا”۔ نبی کریم علیہ الصلات و السلام کے مبارک ارشاد کا مفہوم ہے کہ ”یقینا تم میں پہلے لوگ اس لیے ہلاک ہوئے کہ ان جب کوئی معزز شخص چوری کرتا تو اس کو چھوڑ دیتے اور اگر کوئی کمزور چوری کرتا تو اس پر حد جاری کرتے تھے۔ اللہ کی قسم اگر فاطمہ بن محمد بھی چوری کرتی تو اس کے ہاتھ کاٹ دیے جاتے”۔سعودی فرماں روا خادم حرمین شریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز کے اس واضح پیغام سے ثابت ہوتا ہے کہ ولی عہد کی جانب سے احتساب کے کئے جانے والے اقدامات کو خادم حرمین شریفین کی مکمل تائید حاصل ہے۔سعودی عرب کے ولی عہد نے گذشتہ ہفتے سعودی عرب کے موجودہ معاشرتی ڈھانچے کے حوالے سے تاریخی کلمات میں 1979سے قبل کے دور کا ذکر کرتے ہوئے کہا تھا کہ” ہم اُس جانب لوٹ رہے ہیں جہاں ہم پہلے تھے۔”
سعودی معاشرہ کو اعتدال پسند اسلام کا ملک اور تمام ادیان کے پیروکاروں سمیت دنیا بھر کے لئے دروازے کھلے رکھنے کے نئے عزم کے ساتھ اصلاحات ویژن 2030کے مطابق سعودی عرب اس سوچ کی جانب بڑھتا جا رہا ہے ۔ 1979میں خمینی انقلاب کے بعد ایرانی سوچ کی وجہ سے خطے کے کئی اسلامی ممالک سمیت سعودی عرب میں بھی تبدیلی رونما ہوئی خاص طور پر صحوہ کی تحریکوں کے مبلغین اور خوان المسلمین اپنے عقائد کے ساتھ ایک ایسے کلچر کے داعی بن گئے جس سے سعودی ثقافت متاثر ہونا شروع ہوئی ۔ 1960اور 1970کی دہائی میں سعودی باشندے جب بیرون ملک جاتے تو انہیں انتہا پسندی کی جانب راغب نہیں کیا جاتاتھا لیکن بعد میں القاعدہ ، داعش جیسی تنظیموں نے سعودی باشندوں کی اکثریت کو اپنے زیر اثر لانا شروع کردیا جس سے سعودی عرب کے شہری بھی انتہا پسندی سے متاثر ہونا شروع ہوئے اور سعودی تشخص کو نقصان پہنچا ، سعودی شہریوں کے مالیاتی استحکام کی وجہ سے چند باشندوں نے دیگر اسلامی ممالک سمیت کئی مغربی ممالک میں شدت پسندوں کے لئے فنڈز فراہم کئے اور ان تنظیموں کے تنظیمی ڈھانچوں کو مضبوط بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔خمینی انقلاب سے قبل سعودی عرب کو ہمیشہ معتدل ، رواداری اور برداشت کے کلچر کا حامی اور منافرت کے راستے کا مخالف سمجھا جاتا تھا ۔خطے میں ریاستی وسعت کے رجحان نے سعودی معاشرے کو بھی اپنی لیپٹ میں لے لیا اور دو بڑے بلاک دنیا کے سامنے وارد ہونے سے عرب و عجم کی چپقلش میں عرب ممالک میں خانہ جنگیوں اور سازشوں کو جنم دیا ۔
سعودی فرماں روانے 1979ء سے قبل کے سعودی عرب کے ثقافتی اقدار کی بحالی کیلئے عملی اقدامات شروع کردیئے ہیں۔ ولی عہد محمد بن سلیمان کے اقدامات کو جہاں ایک جانب سراہا جارہا ہے تو دوسری جانب کچھ حلقے ان تحفظات کا بھی اظہار کررہے ہیں کہ” امریکہ اپنے اثر رسوخ کی بنا پر سعودی عرب کی پالیسیوں میں اثر انداز ہونے کی کوشش کررہا ہے ۔ان اقدامات سے کہیں انتشار و باہمی چپقلش میں الجھ کر دیگر عرب ممالک کی طرح یہ مملکت بھی کسی خانہ جنگی کا سبب نہ بن جائے”۔ گو کہ سعودی عرب کے انتظامی معاملات ریاست کی مضبوط گرفت میں ہوتے ہیں لیکن حالیہ برسوں میں عراق ، لبنان، لیبیا، شام ، مصر، ترکی اور یمن میں ہونے والی شورشوںو بیرونی مداخلتوں سے امت مسلمہ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ، اندرون ِ خانہ تنازعات کی وجہ سے خطے کی صورتحال تبدیل ہوتی چلی گئی اور ان عرب ممالک کی پالیسیوں پر امریکہ اور روس کی بالادستی قائم ہورہی ہے۔ولی عہد محمد بن سلیمان نے ‘سب سے پہلے سعودی عرب ‘کے عزم کے ساتھ جن اقدامات کا آغاز کیا ہے ۔ اس میں سرمایہ کاری کے نئے مواقعوں کی تلاش، مذہبی مقامات کی سیاحت ، تیل پر انحصار کم کرتے ہوئے دیگر ذرائع اور ‘نیوم سٹی ‘ جیسے مزیددس بڑے منصوبے کو لیکر کئی ایسے اقدامات و قوانین میں اصلاحات کیں ہیں جس سے عالمی دنیا میں سعودی عرب کا نیا کردار اُبھر رہا ہے۔
سب سے اہم بات یہ بھی ہے کہ سعودی عرب نے بھی اب یہ احساس بھی کرلیا ہے کہ دنیا میں طاقت ور وہی ہے جو جدید ٹیکنالوجی میں خود کفیل ہو اورجدید دور کے مطابق اپنی سرزمین کی حفاظت کیلئے جدیدترین ہتھیاروں اور نئی ٹیکنالوجی کے ساتھ ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا ہو۔ صرف تیل ، حج و عمرے پر انحصار کم کرکے دنیا میں تبدیل ہوتے طاقت کے توازن میں اپنی جگہ بنانے کیلئے مربوط منصوبے ہی ریاست کو اپنی سرزمین کی حفاظت وخود کفیل بنانے میں معاون ہوگا ۔دوسری جانب مغربی اور ترقی یافتہ ممالک پٹرولیم مصنوعات پر انحصار کم کرنے کی تگ و دو میں لگے ہوئے ہیں ۔ جس کیلئے ڈیزل ، پٹرول ،گیس کے متبادل ذرائع اختیار کئے جا رہے ہیں اور ان کے تجارب کامیابی کی جانب گامزن ہیں ۔توانائی کے منصوبوں میںجدید ٹیکنالوجی سے تیل پر دار ومدار مستقبل میں کم ہوجائے گا اور ترقی یافتہ ممالک کا تیل کے متبادل ذرائع استعمال ہونے کی اہلیت کے بعد تیل کی دولت پر انحصار کرنے والے عرب ممالک ، معاشی کمزوری، مستحکم انتظام و انصرام کیلئے مشکلات کا شکار ہوکر غیر محفوظ ہوجائیں گے۔یورپ، امریکہ سمیت دیگر ممالک 2050تک تیل کی غلامی سے خود کو آزاد کرنے کی کوشش کررہے ہیں اور توانائی کے اُن ذرائع کو استعمال کرنے کی کوشش کررہے ہیں جس کو کسی بھی منتشر ملک سے با آسانی حاصل کیا جا سکے ، سعودی حکومت کی جانب سے یورنیم کی تلاش اور دیگر سرمایہ کاری کے عظیم منصوبے اس امر کو یقینی بنا رہے ہیں۔دیگر عرب و مسلم ممالک میں انتشار و غیر مستحکم حکومتوں کے محرکات کو سمجھنے کے بعد سعودی عرب اپنی داخلی ، خارجی اور عسکری پالیسی میں کسی خاص ملک یا مملکتوں پر انحصار کم کرکے خود انحصاری کی پالیسی پر گامزن ہوچکا ہے۔
احتسابی عمل کے دوران کسی بھی اندرون خانہ سرگرمیوں سے اصلاحاتی مشن کی ناکامی کے پش نظر ولی عہد مستقبل کیلئے لائحہ عمل تیار کررہے ہیں ۔سعودی عرب اس وقت مالیات کے حوالے سے دیگر عرب و مسلم ممالک میں ایک کلیدی حیثیت رکھتا ہے ۔ خطے میں سعودی عرب کو جس طرح جنگوں میں الجھایا جا رہا ہے اس کا ادارک کرتے ہوئے بتدریج سعودی عرب ماضی کی روایات کے مطابق انتہا پسندی ، فرقہ واریت اور ایسے عناصر سے خود کو دور رکھنے کی کوشش کررہا ہے جس میں سعودی عرب کی سرزمین تمام دنیا کے ادایان اور مسالک کے لئے یکساں قابل قبول بن سکے۔سعودی عرب اور ایرا ن تنازعے کو حل کرنے کیلئے دوست ممالک ایک خاص نقطے پر اتفاق رائے کے لئے بھی کوشش کررہے ہیں۔ اس بات کا اندازہ پاکستانی افواج کے سربراہ جنرل باجوہ کا دو دہائی بعد ایران کے تین روزہ سرکاری دورے سے بھی لگایا جاسکتا ہے۔
پاکستان دورے سے قبل ایران و سعودی عرب کے درمیان ثالثی کی پیش کش کرچکا ہے۔ بظاہر عالمی برداری کو یہ تاثر گیا ہے کہ پاکستان کے قطر سے تعلقات نے سعودی عرب کو پاکستان سے محتاط اور تعلقات میں فاصلے کردیئے ہیں ۔ لیکن سعودی عرب بخوبی جانتا ہے کہ میزائل ٹیکنالوجی اور جدید دور سے ہم آہنگ ہونے کیلئے پاکستان ، سعودی عرب کا سب سے پُر اعتماد اتحادی بن کر ریاست کی مضبوطی کیلئے معاون ثابت ہوگا ۔ سعودی عرب ، امریکہ پالیسیوں کا بھی اچھی طرح جائزہ لے رہا ہے یہی وجہ ہے کہ سعودی فرماں روا کے دورہ روس نے امریکا کے ایوانوں نے لرزہ پیدا کردیا تھا ۔ سعودی عرب اب جدید دور کے تقاضوں کے مطابق خود ڈھالنے کیلئے پرانی ثقافت و حییثت کو واپس لانے کی مثبت کوشش میں مصروف ہے۔ولی عہد محمد بن سلیمان کے اصلاحاتی پروگرام سے مثبت تبدیلی عرب ممالک سمیت پوری دنیا کے لئے نیک امیدوں کا پیام لائیں گے۔