تحریر : رضوان اللہ پشاوری پتہ نہیں کہ اس پر خوشی کا اظہار کیا جائے یا افسوس کا!اگر خوشی کا اظہار کیا جائے گا تو اس کی اصل وجہ یہی ہوگی کہ جہاں پر مُلا اور مسٹر میں دوری تھی،تو اب حکومت کے اس اقدام سے وہ دوری تو ختم ہو جائے گی ،مجھے تو اس کے علاوہ اور کوئی فائدہ بظاہر نظر نہیں آتا،حکومت وقت کا یہ اقدام اگر ایک طرف مستحسن ہے تو دوسری طرف بہت سی خرابیوں کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی اور ایک نیا پنڈورا بکس کھل جائے گا۔
ان خرابیوں میں سے پہلی خرابی اور زیادہ حیرت کی بات یہ ہے کہ آج تک تو مدارس کی رجسٹریشن اٹھارویں ترمیم کے مطابق سوسائٹیز ایکٹ 1860کے تحت ہوتی چلی آرہی ہے،مدارس کو عام سوسائٹیز،این جی اوز،رفاہی تنظیموں اور کارخانوں(انڈسٹریز)کے زمرے میں شمار کیا جاتا رہاہے،اور اس رجسٹریشن میں بھی آئے روز تبدیلیاں ہوتی رہی ہیں،حتی کہ دفاتر والوں کو بھی پتہ نہیں ہوتا،ایک مراسلہ نگار کے مطابق ہمارے رجسٹریشن پر ایک سال کا عرصہ لگاسالانہ رینیول کا بھی یہی مسئلہ ہے،چنانچہ پہلے قانون میں ترمیم کر کے مدارس کو انڈسٹریل زون سے نکال کر ایجوکیشن میں شامل کرنا ہوگا،بعد ازاں اس کے لیے تفصیلی طریقہ کار وضع کرنا ہوگا،نفاذ کا مرحلہ تو بعد میں ہوگا، عجب صورتحال ہے ،اندھوں کا راج ہے،ہمارے تعلیمی ماہرین بھی نہیں سوچتے کہ آخر کس قانون کے تحت اپنے ساتھ مدارس کی رجسٹریشن کریں گے،نہ کوئی قانون ہے نہ اس قانون کا نوٹیفیکیشن اور مہینے کے اندر اندر رجسٹریشن کا کام مکمل کرنا چاہتے ہیں۔
دوسری خرابی یہ لازم آتی ہے کہ اگر مدارس انٹر بورڈ کے ساتھ ملحق ہوجائے تو پھرمدارس کی نظام تعلیم کوکس نظر سے دیکھیں گے، جس طرح وہ اپنی نظام تعلیم میں آئے روز تجربات کرتے رہتے ہیں،تو قرآن،حدیث اور فقہ وغیرہ توان تجربات کے متحمل نہیں ہو سکتے۔
تیسری خرابی یہ لازم آئے گی کہ روز اول سے دینی اور عصری تعلیمی اداروں کے اسباق کے دورانیہ اور چھٹیوں کی ترتیب میں جوتبدیلی رہی ہے،تو اب اس کا کیا بنے گا؟اگر مدارس دینیہ کے لاکھوں حفاظ کرام رمضان میں قرآن سنانے کی عظیم سنت سے محروم رہیں گے اور حفاظت قرآن کے غیبی اور الٰہی انتظام سے تصادم کا خطرہ بھی درپیش ہوگا۔
چوتھی خرابی یہ لازم آئے گی کہ شیڈول اورطریقہ امتحانات کاکیا کیا جائے گا؟حالانکہ امتحانات کے حوالے سے مدارس دینیہ کا جو طریقہ رہا ہے وہ شائد کہ کسی عصری ادارے میں ہو،مدارس دینیہ کا طریقہ کار یہ ہے کہ پورے مملکت خداداد میں ایک ہی دن،ایک ہی وقت پر ایک ہی پرچہ ہوا کرتا ہے،جس کتاب کا پرچہ یہاں پشاور میں ہے تووہی پرچہ گلگت بلتستان اور سندھ کے ریگستانوں میں بھی وہی پرچہ ہوا کرتا ہے،اس میں زبر،زیر کا فرق بھی نہیں ہوا کرتا،بخلاف عصری تعلیمی اداروں کے کہ یہاں تو پشاور کا پرچہ الگ تو مردان کا الگ۔غرض ہر بورڈ کا الگ الگ پرچہ ہوا کرتا ہے،دن کے اختلاف کے ساتھ ساتھ پرچے کا اختلاف بھی مسلم ہے،اس کے علاوہ مدارس دینیہ کے امتحانات میں نقل اور استاد کے ساتھ بے ادبی کا کوئی واقعہ شاذ ونادر حکومت وقت کے کان کو لگا ہوا ہوگا اور عصری تعلیمی اداروں میں تو ہر آئے روزنقل کے واقعات بچے بھی سنتے اور دیکھتے رہتے ہیں۔
ان تما خرابیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے میں حکومت وقت سے ایک استدعا کرتا ہوں جوکہ میری رائے بھی ہے،وہ یہ کہ حکومت وقت مدارس دینیہ کے بورڈ وفاق المدارس العربیہ پاکستان کو ایک تنظیم کا نام دیتے ہیں،میں سمجھتا ہوں کہ حکومت وقت اس میں بالکل غلطی پر ہے،حکومت وقت مدارس کو اس لیے انٹر بورڈ کے ساتھ پیوست کرتے ہیں کہ ان تعلیمی اداروں کو بھی ایجوکشن میں داخل کریں،تو نہیں نہیں جی حکومت وقت یہ کام کرلیں کہ مدارس دینیہ کو انٹر بورڈ کے ساتھ ملحق نہ کرے بلکہ مدارس دینیہ کے بورڈ (وفاق المدارس العربیہ پاکستان)کو ہی سرکاری کر دے تو خود بخود تمام کے تمام مدارس ہی سرکاری ہوجائیں گے۔
کہ جس طرح انٹر بورڈ اور یونیورسٹیاں کی ہیں تو بالکل اسی طرح دینی مدارس بھی بس وفاق کے ساتھ رجسٹر ہوا کریں گی اور جب وفاق المدارس ہی سرکاری ہو جائے گی تو حکومت وقت کو بھی اسی میں آسانی ہوگی کہ وہ ہر مدرسہ کو الگ الگ لیٹر اور پولیس نہیں بھیجے گی بس حکومت وقت وفاق المدارس کے ساتھ رابطی میں رہے گی اور انہی سے ریکارڈ طلب کرے گی،یا اگر حکومت اسی پر راضی نہیں تو پھر مدارس کو اپنے ہی حال پر چھوڑ دیئے جائیں،جیسے تھے ویسے ہی رہیں۔ہاں اگر افغان مہاجرین، ملک بھر کے فوجی آپریشنز اور جعلی مقابلوںکے مارے بے شمار آئی ڈی پیز کی طرح مدارس کے نام پر” یاروں” سے کچھ وصولی کا ارداہ ہے یا ان کا وعدہ ہے،تو یاد رکھے کہ قرآن پاک اور اس کی تعلیمات یعنی مدارس کے نظام کا محافظ تو خود اللہ ہے،مدارس کا کچھ بھی نہیں بگڑے گا،فکر بس رہی سہی اپنے نظام تعلیم کی کرنا۔
Rizwan Ullah Peshawari
تحریر : رضوان اللہ پشاوری 0313-5920580 rizwan.peshawarii@gmail.com