تحریر : پروفیسر رفعت مظہر جوں جوں 2018ء قریب آ رہا ہے انتخابی جنوں بھی اپنی رفعتوں کو چھونے لگا ہے۔ ہر طرف جلسے ،جلوسوں اور ریلیوں کی بھرمار ہے ۔جس کے پلّے کچھ نہیںوہ قوم کو سہانے سپنوں کی حسین وادیوں کی سیر کروا رہا ہے اور جس نے گزشتہ ساڑھے چار سالوں میں اقتدار میں ہونے کے باوجود ”کَکھ” نہیں کیا،وہ لمبی لمبی چھوڑ رہا ہے۔ کپتان صاحب تو خیر 2013ء سے ہی میدانِ عمل میں ہیں۔ اُنہوں نے عام انتخابات کے نتائج کو پہلے دِن سے ہی تسلیم نہیں کیا تھا کیونکہ اُنہیں تو دو تہائی اکثریت کا اتنا یقین تھا کہ وہ لوگوں سے شرطیں باندھتے پھر رہے تھے۔
لندن میں اپنے بیٹوں سے ملاقات کے بعد اُنہوں نے کہاکہ اب اُن سے اگلی ملاقات بطور وزیرِاعظم پاکستان میں ہوگی لیکن جب انتخابی نتائج سامنے آئے تو اُن کے حصے میں بقدرِاشکِ بُلبُل ہی آسکا۔ اپنے سپنوں کا محل یوں چکناچور ہوتے دیکھ کر وہ سڑکوں پر نکل آئے اور اب تک وہ سڑکوں پر ہی ہیں۔ پاکستان کی تاریخ میں اتنا طویل احتجاج دیکھا نہ سُنا۔ اب بھی اُنہیں وزیرِاعظم بننے کی بہت جلدی ہے اسی لیے وہ فوری انتخابات کا مطالبہ کر رہے ہیںلیکن اُن کی دال گلتی نظر نہیں آرہی ۔کیونکہ نوازلیگ کسی بھی صورت میں مارچ میں ہونے والے سینٹ کے الیکشن سے پہلے عام انتخابات میں جانے کو تیار نہیں۔ وجہ یہ کہ سینٹ کے آمدہ انتخابات میں اُسے واضح اکثریت حاصل ہونے والی ہے۔
کپتان کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ وہ کسی بھی سیاسی جماعت سے اتحاد کے قائل نہیں کیونکہ وہ تحریکِ انصاف کو پاکستان کی مقبول ترین سیاسی جماعت سمجھتے ہیں اور مِل بانٹ کر کھانے کے قائل نہیں۔ اسی لیے نئے بننے والے کسی بھی سیاسی اتحاد نے اُن سے رجوع نہیں کیا۔ نئے سیاسی اتحاد وں میں سب سے بڑا اتحاد پرویز مشرف کی قیادت میں تشکیل پا رہا ہے۔ یہ 23 جماعتی اتحاد ہے جس کی سیاسی جماعتوں کی صورتِ حال یہ ہے کہ غالب اکثریت کے پاس تانگا چھوڑ ،رکشے کی سواریاں بھی نہیں۔اِس 23 جماعتی اتحاد کو دیکھ کر ہمارے بھی جی میں آیا کہ چلو ہم بھی ایک سیاسی جماعت بنا لیتے ہیںتاکہ ہمارا نام بھی ”عظیم سیاسی زعما”میں ہونے لگے لیکن ہمارے ”غیرسیاسی میاں” کی شدیدترین مخالفت کی وجہ سے ہمارا یہ ادھورا خواب پورا نہ ہوسکا۔ ہو سکتا ہے کہ اِس میں اُن کے حسد کا عنصر بھی شامل ہو کیونکہ یہ تو طے ہے کہ پاکستان میں عورتوں کا استحصال ہو رہا ہے اور آج بھی عورت کو پاؤں کی جوتی سمجھا جاتا ہے ۔
پرویز مشرف نے 23 جماعتی اتحاد کے اکابرین سے ٹیلی فونک خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مسلم لیگ نون اور پیپلزپارٹی نے ملک کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے ۔اگر الیکشن سے مسائل حل نہ ہوں تو عدلیہ اور فوج مِل کر ”کچھ اور” کریں ۔اُنہوں نے کہا کہ اب نوازشریف وزیرِاعظم نہیں رہے اور اُن کا کوئی سیاسی مستقبل بھی نہیں۔وہ نوازشریف کی وجہ سے پاکستان آ کر مقدمات کا سامنا نہیں کر رہے تھے۔اب وہ پاکستان آکر مقدمات کا سامنا کریں گے۔ پرویز مشرف کے اِس بیان پر محترمہ مریم نواز نے ٹویٹ کیا کہ
یہ وقت کسی کی رعونت پر خاک ڈال گیا یہ کون بول رہا تھا خُدا کے لہجے میں
مریم نواز کا ٹویٹ اپنی جگہ لیکن ہمیں تو خوشی ہے کہ قوم کی دِل لگی کے لیے ایک اور ”میوزیکل کنسرٹ” والی پارٹی معرضِ وجود میں آگئی ۔تحریکِ انصاف تو اپنے جلسوں کی رونق بڑھانے کے لیے ڈی جے کا سہارا لیا کرتی ہے لیکن اب ”اتحادی سربراہ” طبلے سارنگی کے ساتھ خود ہی مٹک مٹک کر قوم کو محظوظ کیا کریں گے۔
ایک سیاسی اتحاد ایم کیو ایم پاکستان اور پی ایس پی کے درمیان بھی ہوا لیکن وہ چوبیس گھنٹوں میں ہی دَم توڑ گیا۔شنید ہے کہ یہ اتحاد کسی کے دباؤ پر معرضِ وجود میں آرہا تھا لیکن وہ” ٹائیں ٹائیں فِش” ہوگیا۔ اتحاد کروانے والوں کی نااہلی اِس امر سے ظاہر ہوتی ہے کہ اُنہوں نے جو کچھ کروانا چاہا ، اُس میں وہ بُری طرح ناکام ہوگئے۔
اتحاد کے موقعے پرہنگامی پریس کانفرنس میں ایم کیو ایم کے سربراہ فاروق ستّار نے پہلے خطاب کرتے ہوئے ایم کیو ایم اور پی ایس پی اتحاد کا اعلان کیاجس میں یہ ظاہر نہیں ہوتا تھا کہ دونوں جماعتیں آپس میں ضَم ہو کر ایک نئی جماعت تشکیل دے رہی ہیں ۔جب پاک سر زمین کے سربراہ مصطفٰے کمال کی باری آئی تو اُس نے کہا کہ نئے سیاسی اتحاد کا نیا نام ہو گا جو کسی بھی صورت میں ایم کیو ایم نہیں ہوگا کیونکہ ایم کیو ایم میں لندن میں بیٹھے الطاف حسین کی بُو آتی ہے ۔مصظفٰے کمال نے یہ بھی کہا کہ نئے سیاسی اتحاد کا نیا جھنڈا، نیا منشور اور نیا انتخابی نشان ہوگا۔ جب مصظفٰے کمال یہ باتیں کر رہے تھے تو اُس وقت بھی فاروق ستار اپنی سیٹ پر بے چینی سے پہلو بدل رہے تھے۔ اگلے دِن ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی نے ہنگامی اجلاس کیا جس میں فاروق ستار کو سرے سے بلایا ہی نہیں گیا اور یہ طے ہوا کہ ایم کیو ایم کا نہ تو نام تبدیل ہو گا اور نہ ہی انتخابی نشان۔ اِسی لیے فاروق ستّار نے اپنے گھر میںہنگامی پریس کانفرس بلائی جس میں اُنہوں نے نہ صرف اِس سیاسی اتحاد کے خاتمے کا اعلان کیا بلکہ یہ ڈرامہ بھی کیاکہ وہ ایم کیو ایم کی سربراہی اور سیاست سے دستبردار ہو رہے ہیں۔ ایسے ڈرامے الطاف حسین بھی کیا کرتا تھا، اب قوم نے فاروق ستار میں بھی اپنے قائد کی جھلک دیکھ لی۔ الطاف حسین ہی کی طرح فاروق ستار نے بھی اپنی دستبرداری کا یہ اعلان صرف دو گھنٹے بعد واپس لے لیا اور بہانہ یہ بنایا کہ یہ اُن کی والدہ کا حکم تھا۔ اپنے ڈرامے میں رنگ بھرنے کے لیے وہ اپنی بوڑھی والدہ کو بھی ساتھ لے آئے۔ فی الحال تو یہ اتحاد ریزہ ریزہ ہو گیا۔ اب دیکھتے ہیں کہ اب اِس اتحاد کے بانی ایم کیو ایم اور پی ایس پی کو اکٹھا کرنے کے لیے کون سی نئی چال چلتے ہیں۔
ایک سیاسی اتحاد متحدہ مجلسِ عمل کی بحالی کی صورت میں بھی سامنے آیا ہے۔ منصورہ لاہور میں منعقد ہونے والے اجلاس میں یہ طے کیا گیا کہ متحدہ مجلسِ عمل ایک دفعہ پھر ایک جھنڈے تَلے الیکشن لڑے گی جس کا باقاعدہ اعلان دسمبر میں مولانا شاہ احمد نورانی مرحوم کی رہائش گاہ پر کیا جائے گا۔ حیرت ہے کہ مومن تو ایک سوراخ سے دو بار نہیں ڈسا جاتا لیکن مومنین کی جماعت (جماعت اسلامی) نے ایک دفعہ پھر اُسی سوراخ کے سامنے اپنا پاؤں رکھ دیا جس سے وہ پہلے بھی ایک بار ڈسی جا چکی ہے۔
مولانا فضل الرحمٰن کبھی گھاٹے کا سودا نہیں کرتے۔ 2002ء کے انتخابات میں ایم ایم اے نے محیر العقول کامیابی حاصل کی جس کا فائدہ صرف مولانا فضل الرحمٰن نے ہی اٹھایا۔ وہ خیبر پختونخوا کی وزارتِ اعلیٰ بھی لے اُڑے اور مرکز میں قائدِ حزبِ اختلاف بھی بن بیٹھے اورجماعت اسلامی کے حصّے میں آئی صرف بدنامی۔ 2008 کے انتخابات میں جماعت اسلامی نے بائیکاٹ کیا اور مولانا صاحب چاروں شانے چِت ہو کر آصف زرداری کے چَرنوں میں جا بیٹھے۔ 2013ء کے انتخابات میں پیپلزپارٹی کو زوال آیا تو مولانا صاحب نوازلیگ کے اتحادی بن کر وزارتوں کے مزے لوٹنے لگے۔ اُن کے ہاں داہیں ،بائیں بازو کی کوئی تفریق نہیں ۔ اُنہیں تو اقتدار چاہیے اور بس۔۔۔۔ اب ایک دفعہ پھر مولانا صاحب جماعت اسلامی سے ”ہَتھ” کرنے جا رہے ہیں، اللہ خیر کرے۔