تحریر : واٹسن سلیم گل، ایمسٹرڈیم کراچی کے حالات پر میں نظر بھی رکھتا ہوں اور لکھتا بھی ہوں کیونکہ کراچی میں، میں پیدا ہوا ہوں کراچی میں ہی اپنا بچپن گزارا ہے اور اپنے شہر سے پیار کرتا ہوں۔ ایم کیو ایم کی سیاست کو بھی نزدیک سے دیکھا ہے۔ اور میرا یہ ماننا ہے کہ کراچی سے ایم کیو ایم کو ختم کرنے کی کوشش نہ صرف کراچی بلکہ پاکستان کو نقصان پہنچائے گی۔ پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ جب جب بھی زبردستی کی جمہوریت مُسلط کرنے کی کوشش کی گئ ہے اس سے ملک کا نقصان ہی ہوا ہے۔ اور کراچی کی سیاست ایم کیو ایم کے گرد گھومتی ہے۔ کراچی میں فاروق ستار کی اور مصطفیٰ کمال کی پریس کانفرنس دیکھ کر اندازہ ہوا ہے کہ بلکہ اگر یہ کہوں کہ خدشہ ہوا ہے کہ کراچی کو ابھی اور بھی امتحاں دینے ہیں۔ میرا خیال یہ ہے کہ دونوں کو زبردستی ایک گھاٹ پر بٹھایا گیا ہے باقی وقت ثابت کرے گا کہ کون شیر ہے اور کون بکری ہے۔ اس وقت ایم کیوایم پاکستان میں بکری کی جھلک نظر آ رہی ہے۔
اگر 2018 کا الیکشن جیت گئ تو پھر شیر ہے ورنہ ڈھیر۔ اسے اس طرح سے بھی دیکھ سکتے ہیں کہ کراچی میں ایم کیوایم کی آواز دبانے کی ایک اور کوشش ہے کیوں کہ کافی وقت سے ایم کیو ایم کے وکرز اور لیڈر شپ کے گرد گھیرا تنگ کیا جا رہا ہے۔ جو پی ایس پی میں چلا جاتا ہے اس کے مقدمے سرد خانے میں چلے جاتے ہیں۔ ارشد وہرہ پر منی لانڈرنگ کا الزام ہے بلکہ مقدمہ درج ہے۔ جب تک ایم کیو ایم کا حصہ تھے چھپتے پھر رہے تھے۔ پی ایس پی میں شامل ہوتے ہی آزاد گھوم رہے ہیں۔اس کے علاوہ انیس قائم خانی، ڈاکٹر صغیر ، آفتاب وغیرہ پر سنگین الزامات ہیں مگر آزاد ہیں۔ یہ پریس کانفرنس فاروق ستار کو اور ایم کیو ایم پاکستان کو مضید کمزور کر گئ ہے۔ کیونکہ مصطفیٰ کمال نے کھُل کر کہا ہے کہ وہ فاوق ستار کے کسی بھی اتحاد کو لسانی نام سے شامل نہی کرے گا۔
یعنی ایم کیو ایم کو اپنے نام سے اپنے جھنڈے سے اور اپنے نشان سے دستبردار ہونا پڑے گا۔ اس نیوز کانفرنس میں فاروق ستار جن کی جماعت کی قومی اور صوبائ اسمبلی میں اچھی خاصی نمایندگی ہے کمزور نظر آرہے تھے اور جناب کمال صاحب بھی کمال کے پُر اعتماد نظر آرہے تھے جیسے ان کو فرشتوں کی سپورٹ حاصل ہو۔ ایم کیو ایم پاکستان کے پاس صرف مہاجروں کے نام کی طاقت ہے وہ اگر مہاجر نعرے کو پیچھے چھوڑ کر آگے بڑھے گے تو پیچھے کچھ باقی نہی بچے گا۔ میرا یہ خیال ہے کہ فارق ستار اور ایم کیو ایم کبھی بھی اپنی اس پہچان سے دستبردار نہی ہونگے۔ کیونکہ ابھی بھی کراچی میں ان کا ووٹ بینک برقرار ہے۔ اور یہ وقت کے ساتھ مضید مضبوط ہوگا۔ رہی بات مصطفٰی کمال کی تو میرا یہ خیال ہے کہ 2018 کے الیکشن میں اگر فرشتوں نے ووٹ نہی ڈالا تو پی ای پی کی ضمانتیں ضبط ہو جائے گی۔ اس لئے یہ اتحاد یا الحاق زیادہ دیر نہی چلے گا۔ بلکہ ہو سکتا ہے کہ جب میرا یہ کالم چھپے تو اس اتحاد کے غبارے سے ہوا نکل چکی ہو۔ کراچی کے عوام جو اردو بولتے ہیں وہ الطاف حسین کے بعد اب کسی اور لیڈر کو قبول نہی کریں گے چاہے وہ فارق ستار ہو یا مصطفیٰ کمال ہو۔ مہاجر کمیونٹی کا ووٹ صرف اس کو ملے گا جو مہاجروں کا نعرہ لگائے گا۔
میں زاتی طور پر جنرل مشرف کا دل سے احترام کرتا ہوں مگر میں کہیں بھی ان کو مہاجر کمیونٹی کے لیڈر کے طور پر نہی دیکھ رہا ہوں۔ 2018 کے الیکشن میں ایم کیو ایم اگر دوبارہ طاقت میں آتی ہے تو اس بار وہ پیپلزپارٹی کی مخالف جماعتوں کے ساتھ مل کر سندھ میں اپنا بھرپور کردار ادا کر سکتی ہے ۔ ماضی میں پیپلزپارٹی کے ساتھ مشترکہ حکومت کا حصہ بن کر ایم کیو ایم نے بہت نقصان اٹھایا ہے اور پیپلزپارٹی کبھی بھی ایم کیو ایم کو عزت اور مرتبہ نہی دے گی کیونکہ پیپلزپارٹی جانتی ہے کہ اس کے لئے سب سے بڑا خطرہ ہی ایم کیو ایم پاکستان ہے۔ آج پیپلزپارٹی کے راہنما سید خورشید شاہ کا اس میٹینگ کے حوالے سے بیان مجھے مضحکہ خیز لگا جس میں وہ کہہ رہے ہیں کہ ایم کیو ایم اور پی ایس پی کے حوالے سے فیصلے کہیں اور ہو رہے ہیں۔ ایک طرف تو ن لیگ والے شور کر رہے ہیں کہ ادارے جمہوریت کی بساط لپیٹنے کی کوشش کر رہے ہیں تو پیپلزپارٹی جواب دیتی ہے کہ “ادارے” کسی قسم کی بھی کہیں بھی مداخلت نہی کر رہے ہیں مگر آج خورشید شاہ صاحب ایم کیو ایم پاکستان اور پی ایس پی کی میٹینگ کو کسی اور کا اجینڈہ قرار دے رہے ہیں۔ اور فرما رہے ہیں کہ یہ دونوں جماعتیں خود نہی بیٹھیں بلکہ کسی اور نے ان کو بیٹھنے پر مجبور کیا ہے۔
اب خورشید شاہ صاحب سے کوئ پوچھے کہ یہ الزام جب ن لیگ آپ لوگوں کے حوالے سے لگاتے ہیں تو آپ کہتے ہو کہ کوئ بھی ادارہ سیاست میں مداخلت نہی کر رہا ہے۔ اور پھر آپ ن لیگ سے ادارے کا نام پوچھتے ہو۔ مگر آپ وہی الزام ایم کیو ایم اور پی ایس پی کی میٹینگ کے حوالے سے آپ خود لگاتے ہو تو کیا یہ منافقت نہی ہے۔ اور آپ بھی کسی ادارے کا نام نہی لیتے۔ اسے کہتے ہیں بدبودار سیاست۔ میرے اس کالم کے لکھتے وقت کراچی کی صورتحال ایک دم تبدیل ہوئ جب ڈاکٹر فاروق ستار نے سیاست سے کنارہ کشی کا علان کر دیا اور پھر تین گھنٹے بعد اپنی والدہ کے حکم سے اپنا فیصلہ تبدیل کر کے اپنی جدوجہد کو جاری رکھنے کا اعلان کیا ان تین گھنٹوں میں مجھے ڈاکٹر فاروق کے سیاسی قد میں اضافہ نظر آیا۔