تحریر : مرزا روحیل بیگ جرمنی ہر انسان اپنی بقا، اپنے اور اپنی آئندہ نسل کے بہتر مستقبل کی خواہش رکھتا ہے۔ یہ انسانی فطرت ہے۔ دنیا بھر میں مسلح تنازعات، بحران اور اقتصادی بوجھ تلے دبے انسانوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق اپنی بقا کے لیئے کسی دوسرے ملک میں پناہ کی تلاش بنیادی انسانی حقوق میں شامل ہے۔ اور اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ اس تناظر میں اگر کوئی شخص جس کی جان کو خطرات لاحق ہیں، اس کی طرف سے پناہ حاصل کرنے کے حق کو کوئی بھی مسترد نہیں کر سکتا ہے۔ اپنا سب کچھ داؤ پر لگا کر یورپ پہنچنے والے لاکھوں مہاجرین تمام ممکنہ خطرات مول لینے پر تیار ہوتے ہیں۔ یورپ کا رخ اختیار کرنے والے مہاجرین کی سب سے زیادہ تعداد بحیرہ روم کا راستہ اختیار کرتی ہے۔ انسانوں کی اسمگلنگ کرنے والے افراد بہتر موسم کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کشتیاں کھلے سمندر میں آگے بڑھا دیتے ہیں۔ ان خطرناک سمندری راستوں میں بہت سی کشتیاں ڈوبنے سے سینکڑوں مہاجرین موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔
دنیا بھر میں 6.5 کروڑ سے زائد انسان ہجرت پر مجبور ہیں۔ آج دنیا میں ہر دوسرے تارک وطن کی عمر 18 برس سے بھی کم ہے۔ 85 فیصد سے زائد تارکین وطن یورپ سے باہر دیگر ممالک میں رہ رہے ہیں۔ ہزار ہا شامی، عراقی، افریقی، افغان اور پاکستانی مہاجرین مختلف یورپی خطوں میں پیدل چلتے، سرحدی باڑیں پھلانگتے، کھلے آسمان تلے شب بسری کرتے نظر آتے ہیں۔ اس انسانی المیے کے باعث دنیا میں کئی طرح کی سماجی تقسیم بھی دیکھنے میں آئی ہے۔ کہیں کوئی مہاجر دشمن ہے، تو کوئی مہاجر دوست۔ کسی کو اسلام کے پھیلاؤ کا خوف اور مسلمانوں سے چڑ ہو گئی ہے، تو کوئی مکمل مذہبی آزادی کے ساتھ انہیں پناہ فراہم کرنے کی تحریک چلا رہا ہے۔
جرمنی سمیت یورپ بھر میں ان مہاجرین کو کھلے دل سے قبول کیا جاتا رہا ہے۔ 2015 میں جرمنی نے یورپ بھر میں سب سے زیادہ قریب ایک ملین مہاجرین کو اپنے ملک میں خوش آمدید کہا تھا۔ جرمنی کے وفاقی دفتر برائے تارکین وطن و مہاجرت (بی اے ایم ایف) کے اعدادو شمار کے مطابق اس برس کے پہلے تین ماہ کے دوران مجموعی طور پر 54 ہزار 426 نئے تارکین وطن نے جرمن حکام کو پناہ کی درخواستیں جمع کرائیں۔ ان میں پاکستان سے تعلق رکھنے والے درخواست گزاروں کی تعداد ایک ہزار کے قریب تھی، جبکہ گزشتہ برس کے اسی دورانیے میں تین ہزار سے زائد پاکستانی شہریوں نے جرمن حکام کو اپنی سیاسی پناہ کی درخوستیں جمع کرائی تھیں۔ رواں برس میں جرمنی میں سب سے زیادہ درخواستیں شامی مہاجرین نے جمع کرائیں۔ اس سال کے پہلے تین مہینوں میں قریب بارہ ہزار شامی مہاجرین پناہ کی تلاش میں جرمنی پہنچے، چھ ہزار درخواستوں کے ساتھ افغان شہری دوسرے نمبر پر رہے۔
عراق کے پانچ ہزار شہریوں نے بھی پناہ کی درخواستیں جمع کرائیں۔ 1677 ترک اور 1648 روسی شہری بھی پناہ کی درخواستیں جمع کرانے والوں میں شامل تھے۔ بی اے ایم ایف کے اعدادو شمار کے مطابق مجموعی طور پر مختلف یورپی ممالک کے سولہ ہزار سات سو شہری پناہ کی تلاش میں جرمنی پہنچے۔ رواں برس کے آغاز سے لیکر مئی کے آخر تک چودہ ہزار سے زائد پاکستانی تارکین وطن کی پناہ کی درخواستوں پر فیصلے کیئے گئے، جن میں محض پانچ سو انیس پاکستانی شہریوں کو جرمنی میں رہنے کی اجازت دی گئی۔ مجموعی طور پر اٹھائیس رکنی یورپی یونین کے رکن ممالک میں ایک لاکھ تیس ہزار سے زائد پاکستانی غیر قانونی طور پر مقیم تھے، اور انہیں عدالتی یا انتظامی حکم کے تحت ملک چھوڑنے کا حکم دیا گیا تھا۔ 54 ہزار سات سو سے زائد پاکستانی یورپی یونین کے رکن ممالک سے چلے گئے۔ جرمن حکومت واضح کر چکی ہے کہ جرمنی پہنچنے والے زیادہ تر اقتصادی تارکین وطن ہیں۔ اور ایسے مہاجرین کو سمجھنا ہو گا کہ انہیں یورپ میں قیام کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
مہاجرین کی بڑے پیمانے پر جرمنی آمد کے ردعمل میں مہاجرین اور مسلم مخالف جذبات میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا۔ جرمنی کی انتہائی دائیں بازو کی جماعت ” پیگیڈا” ”PEGIDA ” کی جانب سے مہاجرین مخالف احتجاجی مظاہروں نے یورپ بھر کو تقسیم کر کے رکھ دیا تھا۔ جرمنی میں دائیں بازو کی سوچ کے حامل افراد کی جانب سے اکثر اوقات مہاجرین کے گھروں پر حملے کیئے جاتے ہیں۔ جرمنی بھر میں اس سال کے پہلے نو ماہ کے دوران مہاجرین کے گھروں پر دو سو گیارہ حملے کیئے گئے۔ حالیہ انتخابات میں انتہائی دائیں بازو کی جماعت (اے ایف ڈی) آلٹرنیٹو فار ڈوئچ لینڈ جرمن پارلیمان میں تیسری بڑی سیاسی جماعت بن کر سامنے آئی ہے۔ اے ایف ڈی کا کہنا ہے کہ یورپی یونین کی بیرونی سرحدوں کو بند کر دینا چاہیئے، تاکہ غیر قانونی مہاجرین اس بلاک میں داخل نہ ہو سکیں۔ اے ایف ڈی کا موقف ہے کہ اسلام جرمن معاشرے کا حصہ نہیں۔ جرمن چانسلر انگیلا میرکل کو مہاجرین دوست پالیسیوں پر تنقید کا سامنا رہا ہے۔ مگر انگیلا میرکل مہاجرین کو قبول کرنے کے اپنے موقف پر قائم رہیں۔
انگیلا میرکل نے مہاجرین سے متعلق نئے سماجی قوانین متعارف کرواتے ہوئے کہا تھا کہ ان کی کوشش ہو گی کہ مہاجرین کو مقامی معاشرے میں ضم کیا جا سکے۔ 1960 کی دہائی کے آغاز پر جرمنی نے ترک شہریوں کو بطور ” مہمان کارکن ” اپنے ہاں بلا تو لیا تھا، لیکن ان لاکھوں غیر ملکیوں کو جرمن شہریت دینے اور ان کے سماجی انضمام کے لیئے کوئی باقاعدہ منصوبہ بندی نہیں کی گئی تھی۔ جرمنی میں مہاجرین کو خوش آمدید کہنے کے کلچر میں تیزی سے کمی واقع ہوئی ہے۔ جرمن حکومت نے مہاجرین کی رضاکارانہ واپسی کے لیئے ایک پروگرام شروع کیا ہے جس کے تحت رضاکارانہ واپسی کا فیصلہ کرنے والوں کو حکومت بارہ سو یورو تک کی ابتدائی مالی معاونت فراہم کرے گی۔
جرمنی کی سبھی سیاسی جماعتوں نے یہ اشارہ دیا ہے کہ وہ جرمنی کو انتہائی دائیں بازو کی سیاست کی جانب مزید جھکنے نہیں دیں گے۔ جرمنی اور دوسرے دیگر یورپی رہنما بھی اس بات پر اتفاق کرتے ہیں کہ مہاجرت کے بحران کا خاتمہ اسی صورت ممکن ہے جب تک اس سے جڑے اسباب کو ختم نہ کیا جائے۔ مہاجرت کا ارادہ کرنے والوں کی حوصلہ شکنی کرنا ہے تو بین الاقوامی برادری کو پاکستان کے علاوہ دیگر ممالک کے ترقیاتی تعاون پر توجہ مرکوز کرنا ہو گی۔