تحریر : ملک محمد سلمان چائے کی ٹیبل پر سابق سیکرٹری ٹرانسپورٹ برے فخر سے بتا تے ہیں کہ میں نے آج تک کبھی جہاز کی اکانمی کلاس میں سفر نہیں کیا ہمیشہ بزنس کلاس میں ہی ہوائی سفر کرتا ہوں۔دوسری طرف ٹی وی سکرین پر ٹریفک حادثے کی خبر چل رہی ہے کہ مسافر بس کے تصادم سے سولہ قیمتی جانوں کا نقصان ، ہر طرف کہرام کا سماں اور فضا سوگوار۔یہ نہ تو پہلا واقع ہے اور نہ ہی آخری ،ہر روز ٹریفک حادثات کے درجنوںواقعات رونماء ہوتے ہیں لیکن ہم نے کبھی یہ سوچنے کی زحمت تک گوارا نہ کی کہ ایسا کیوں ہوتا ہے اور آئندہ ایسے حادثات سے بچنے کیلئے کونسے اقدامات کرنے چاہیے۔
روز مرہ زندگی میں ذرائع نقل و حمل بہت زیادہ اہمیت کے حامل ہیں۔تیز رفتاری کے اس ترقی یافتہ دور میں اس کی اہمیت اورافادیت سے کسی کو بھی انکار نہیںہوسکتا۔سکول ،آفس ،ہسپتال یا کسی بھی تفریحی جگہ جانے کیلئے سائیکل سے لیکر موٹرسائیکل،کار،وین اور بس سمیت درجنوں زرئع نقل و حمل ہیں جس کے زریعے ہم ایک جگہ سے دوسری جگہ سفر کرتے ہیں۔ان جدید سفری سہولیات نے فاصلوں کو سمیٹ کر رکھ دیا ہے۔یہ سائنسی ترقی جہاں بہت بڑی نعمت ہے وہیں پر اس کے استعمال میں لاپرواہی سے آسانی تنگی بن کر تباہی و بربادی کا سبب بن جاتی ہے۔ عالمی ادارہ برائے صحت (WHO)کے مطابق اس وقت روڈ ایکسیڈنٹ اموات کی پندرھویں بڑی وجہ بن چکا ہے اگر ان مسائل کا بروقت تدارک نہ کیا گیا تو2030تک روڈ ایکسیڈنٹ اموات کی پانچویں بڑی وجہ بن جائے گی ۔ پولیس ذرائع کے مطابق پاکستان میں آخری دس سال میں ساٹھ ہزار سے زائد افراد ٹریفک حادثات میں جاں بحق ہوئے ہیں یہ تو وہ تعداد ہے جو باقاعدہ پولیس ریکارڈ کا حصہ ہے” اوور آل” یہ تعداد ایک لاکھ سے زائد ہے ،پاکستان میں ہر روز اوسطً پندرہ لوگ ٹریفک حادثات کی وجہ سے جان سے ہاتھ سے دھو بیٹھتے ہیں، اسی طرح سالانہ نو ہزار کے قریب ٹریفک حادثات رُونما ہوتے ہیں جن میں پانچ ہزار کے قریب لوگ زندگی کی بازی ہار جاتے ہیںاور شدید نوعیت کے حادثات میں بعض زخمی زندگی بھر کے لئے اپاہج ہو جاتے ہیں اور معذوری کے روگ کے ساتھ بے بسی اور لاچاری کی کیفیت میں زندگی کے دن پورے کر رہے ہوتے ہیں۔جانی نقصان کی علاوہ موٹر سائیکلز اور گاڑیوں کی صورت میں مالی نقصان بھی ہوتا ہے۔
عالمی مشاہداتی ادارے کی ایک رپورٹ کے مطابق پچانوے فیصد حادثات ڈرائیورکی لاپرواہی اور غلطی کی وجہ سے ہوتے ہیں ، پاکستان میں اسی فیصد ڈرائیوراور مسافر ضروری حفاظتی اقدامات اختیار نہیں کرتے ہیں ،ٹرانسپورٹر حضرات جو نفع خوری کے عادی اور انتہائی طمع پرست ذہنیت کے حامل ہوتے ہیں، وین ،منی مزدا یا بس غرض کوئی بھی سواری ہو” اوورلوڈنگ ”تو جزو لازم بن چکا ہے ، نفع خور ٹرانسپورٹر سیٹیں مکمل ہونے کے بعد مسافروں کی ایک لمبی قطار کھڑے کیے بنا چلنے کا نام ہی نہیں لیتے مزید ازاں کوسٹر کی چھت پر سوار کرنا بھی امر لازم بن چکا ہے ،ہائی ایس ٹویوٹا والے چودہ سیٹر وین میں بائیس افراد سوار کرنے کا ہنر بخوبی جانتے ہیں اور رہتی سہتی کسر” ٹول بکس” پر دو مسافر بٹھا کر پوری کر دیتے ہیں ،فرنٹ سیٹ پر تین افراد کی” اوور لوڈنگ ”کرنے سے ڈرائیور پوری مہارت سے گاڑی کو کنٹرول نہیں کر پاتا جو حادثات کا سبب بن رہا ہے ،شرمناک پہلو یہ ہے کہ درجنوں مسافروں سے بھری گاڑی کو چلانے والے ڈرائیور حضرات کی اکژیت کے پاس ڈرائیونگ لائسنس اور فٹنس سرٹیفکیٹ تک نہیں ہو تا ہے اگر کسی کا لائسنس بن بھی جائے تو سب جانتے ہیں کہ لائسنس برانچ کا میعار صرف اور صرف رشوت ہے ،اس ”معیار ”پر پورا اُترنے والے اندھوں کو بھی گاڑی چلانے کا (N.O.C)مل جاتا ہے،یہاں پر قانون نافذ کرنیوالے محافظوں کی بات کی جائے تووارڈن بھی مال بنائو پالیسی پر گامزن ہیں ،عام افراد کو بلا وجہ تنگ کیا جاتا ہے جبکہ پبلک ٹرانسپورٹرز کو منتھلی کے عواض ڈرائیونگ لائسنس ،فٹنس سر ٹیفیکیٹ اور روٹ پرمٹ چیک کرنا تو درکنار زائد کرایہ وصولی کی بھی کھلی چھٹی دے رکھی ہوتی ہے ۔پبلک ٹرانسپورٹ ڈرائیور ز کی اکژیت ان تمام قانون شکنیوں کے ساتھ ساتھ سگریٹ ،افیون اور چرس کی مہلک مرض کا شکار بھی ہیں،شاید ان ڈرگز کا ہی اثر ہوتا ہے کہ گاڑی کی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھنے کے بعدایکسیلیٹر پر پائوں آتے ہی یہ اس ”زمینی سواری” کو ہوا میں اڑانے کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں،اور یہی” اوووسپیڈ” حادثات کا اہم پیش خیمہ ثابت ہوتی ہے۔یہ سب تکلیف دہ مناظر ہر روزہماری آنکھوں کے سامنے ہوتے ہیں۔سرعام یہ ظلم و ستم ہورہا ہے لیکن انتظامیہ اور متعلقہ ادارے یہ سب دیکھنے والی بینائی سے قاصر نظر آتے ہیں لوگ مرتے ہیں تو مریں لیکن نیچے سے اُوپر تک جیب گرم ہوتی ہے اس لیئے سب اچھا ہے۔
لمحہ فکریہ ہے کہ ہمارے ہاں پبلک ٹرانسپورٹرز کی اکژیت پڑھی لکھی تو دور کبھی سکول تک نہیں گئے ہوتے۔اس کے برعکس ترقی یافتہ ممالک کی طرف نظر دوڑائی جائے تو ہمیں ایک دو نہیں سینکڑوں ایسی مثالیں ملتی ہیں کہ جہاں پبلک ٹرانسپورٹر کیلئے باقاعدہ تعلیمی ادارے ہیں جہاں ڈرائیور کنڈکٹر اور ہیلپر کو تعلیم و تربیت دی جاتی ہے ۔اس لیے وہاں ٹریفک حادثات کی تعداد پاکستان سے بہت زیادہ کم ہے۔ان حالات میں انتہائی ضروری ہے کہ ہمارے ہاں بھی شعبہ ٹرانسپورٹ سے وابستہ افراد کیلئے تعلیم و تربیت کے ادارے قائم کیے جائیں اور وقتاً فوقتاًگاڑیوں کی فٹنس کی جانچ پرتال کو لازمی بنایاجائے اور روڈ سیفٹی کیلئے سڑک سے اگاہی کے بورڈ بھی نصب کیے جائیں تاکہ ٹریفک حادثات پر کنٹرول کر کے قمیتی جانی و مالی نقصان سے بچا جا سکے۔ میٹرو بس اور اورنج لائن ٹرین جیسے منصوبے بہترین پیش رفت ہیں اس سے یقینا عام عوام کو بہترین ،آرام دہ اور تیز ترین سفری سہولیات ملیں گی لیکن جہاں پر یہ سہولت میسر نہیں وہاں کی صورت حال یہ ہوتی ہے کہ گھر سے نہا دھوکر صاف شفاف اجلے کپڑے پہن کر لوکل ٹرانسپورٹ کے زریعے دفتر یا دوسرے شہر جانے والے مسافرجب منزل مقصود پر پہنچتے ہیں تب تک ”اوورلوڈنگ” کے نتیجے میں مسافروں کی دھکم پیل سے اجلے کپڑے گرد الود ہوچکے ہوتے ہیں جبکہ چمچماتی پالش والے جوتے اس طرح گر دسے اٹے ہوتے ہیںکہ ابھی کسی کیچڑ سے نکالے ہوں۔ایسی حالت میں جب غریب عوام ان” بابوافسروں” کے پاس جاتے ہیں تو وہ ناک منہ بسور کر ملتے ہیں۔مگر المیہ ہے کہ ٹیکس دینے والی غریب عوام کو تو پبلک ٹرانسپورٹ میں زائد کرایہ دیکر بھی عزت سے سفر کی سہولت میسر نہیںجبکہ اسی غریب عوام کے ٹیکسوں سے شاہانہ زندگی گزارنے والے افسران پوری شان و شوکت سے ائیر کنڈیشنڈ دفاتر ،لگژری گاڑیوں اور بزنس کلاس جہاز کے مزے لوٹتے ہیں۔
جب لوکل ٹرانسپورٹ پر سفر کرنے والی عوام اور شعبہ ٹرانسپورٹ سے وابستہ انتظامی آفیسروں کی طرز زندگی میں اتنا فرق ہوگا تو کیسے ممکن ہے کہ شعبہ ٹرانسپورٹ میں تبدیلی آسکے۔سیکرٹری ٹرانسپورٹ نے تو کبھی جہاز میں بھی اکانمی کلاس میں سفر نہیں کیا تو اس کو مڈل کلاس طبقے کی کی لوکل ٹرانسپورٹر کے ہاتھوں ذلالت کی کیا خبر۔اس سے ملتا جلتا حال ہی تقریباً باقی ڈیپارٹمنٹس کا بھی ہے جہاں پر یہ بزنس کلاس افسران عوام کے ٹیکسوں سے اکٹھے ہونے والے حکومتی وسائل کو ”مال مفت دل بے رحم” سمجھ کر مزے لوٹ رہے ہیں اور مڈل کلاس عوام لوئر کلاس زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔حکومتی ارباب اختیار کا فرض ہے کہ ٹرانسپورٹ جیسے اہم شعبے میں محنتی اور عوام دوست افسران کا تقرر کرکے عوام کو ”اوورلوڈنگ ”اور ”اوورچارجنگ” کے مسائل سے چھٹکارہ دلایا جائے۔