پڑھتے نہیں پڑھاتے ہیں

Teacher

Teacher

تحریر : واجد علی
اگرچہ سائنس موسم کی چار سے زیادہ اقسام تلاشنے میں بری طرح ناکام رہی ہے مگر خاکسار کی تمام تر کامیابیوں کا راز یہ ہے کہ ہم نے سائنس دانوں کی احمقا نہ باتوں پر کبھی کان نہیں دھرے اور نہ ہی مستقبل میں ان کے بے وقوفانہ دلائل سے متفق ہونے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ہم اساتذہ اور طلباء کے دل کی آرزوئوں اور تمنائوں سے خوب واقف ہیں اور جانتے ہیں کہ دونوں کا مشترکہ پسندیدہ موسم کون سا ہے؟ خاکساری کے ذکر پر ایک شعر دماغ کی سلیٹ پر خوامخواہ آ ٹپکا ہے۔

کس مخمصے میں ڈال دیا اِنکسار نے
اپنے کہے پہ آپ ہی میں شرمسار ہوں
لے آیا میرے واسطے وہ ایک بیلچہ
اک دن یہ کہہ دیا تھا کہ میں خاکسار ہوں

اساتذہ اور تلامذہ کے مشترکہ پسندیدہ موسم پر ہم اپنی تحقیق آپ کے سامنے ضرور رکھیںگے مگر اس موقع پر والدین اور طلباء کے اوصاف حمیدہ کا ذکرنہ کرنا سراسر نا انصافی ہو گی۔ شاگرد لائق ہو یا نالائق دونوں میں ایک وصف بدرجہ اتم پایا جاتا ہے کہ وہ استاد کی غیبت کرنا اپنا فرضِ اوّلین سمجھتے ہیں۔دونوں اقسام کے طلباء کو یہ خطرہ لا حق رہتا ہے کہ استاد ان کے پرچوں کی منصفانہ جانچ نہیں کرے گا۔حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے استاد بے چارہ ہفتہ بھر بیگم کی ڈانٹ پھٹکار کے باوجود ایک ایک پرچے کو باریک بینی سے جانچتا ہے تاکہ کوئی مستقبل کا پائلٹ، ڈاکٹر اور انجینئر ،نائی،موچی یا حلوائی نہ بن جائے۔سچی بات تو یہ ہے جن طلباء کو ماں باپ مستقبل کا معمار اور اقبال کے شاہین سمجھتے ہیں ان کی عقل کا معیار تقریباً خر کے برابر ہے۔اگرچہ میری اس درست تشبیہ پر گدھوں کو اعتراض ہو سکتا ہے اور وہ اس اعتراض پر حق بجانب ہوں گے۔طالب علم پڑھائی کے دوران اپنی کتاب اور سبق پر پوری توجہ مرکوز کرنے کی بجائے استاد کی شخصیت اور لباس کا جائزہ لینے میں مصروف ہوتے ہیں میری ایسے طلباء سے عاجزانہ گزارش ہے کہ آپ کی توجہ اگر صرف اور صرف استاد کے جوتوں تک محدود رہے تو نتائج پر بہت اچھا اثر پڑ سکتا ہے۔

کمرہ جماعت میں کچھ ایسی ہستیاں بھی پائی جاتی ہیں جن کا احترام باقی طلباء کے لیے لازم و ملزوم قرار دیا جاتا ہے۔استاد صرف اس دن سکون سے پڑھا پاتا ہے جس دن یہ قابل قدر ہستیاں رخصت پر ہوتی ہیں ۔ایسی ہی ایک بڑی شخصیت سے مجھے بھی ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔میں ان دنوں ایک نجی اسکول میں معلم تھا اور اپنے ایک طالب علم کی بدولت اناٹومی اور فزیالوجی کی سیر حاصل معلومات حاصل کر چکا تھا کیونکہ وہ اپنی گفتگو میں جن ادبی جملوں اور لفظوں کا استعمال کرتے تھے انہیں” گالیاں” کہنا غیر مناسب ہو گا ۔مجھے ضرورت محسوس ہوئی کہ اس طالب علم کی ادبی خدمات کا ان کے والد صاحب سے تذکرہ کیا جائے ۔میری ان سے فون پر بات ہوئی، رسمی حال احوال کے بعد میں نے مدعا بیان کیا کہ ان کے فرزندِ ارجمند کا لب و لہجہ اتنا شستہ اور ادبی کیوں ہے؟ دوسری جانب سے پنجابی میں کہا گیاکہ”اے کتے دا بچہ ہے گا ای،ایداں دا”ہم نے اس دن سے چپ سادھ رکھی ہے اور اب طلباء کے ساتھ ساتھ ان کے والدین کا احترام بھی لازم ٹھہرا۔ غریب گھرانوں کے بچے تو خیر اسکول کو باہر ہی سے دیکھتے گزرتے ہیں اور پھر ایک دن دنیا سے گزر جاتے ہیں۔میرا زیادہ وقت بڑے گھرانوں کے طلباء کی خدمت گزاری میں گزرا ہے۔ اسی حوالے سے ڈاکٹر نگہت افتخار کا قطعہ برمحل محسوس ہو رہا ہے۔

پپی کو پالنے میں ہے بھلا قباحت کیا
کہ اس سے چوری کا خطرہ بھی دور ہوتا ہے
اور اس پہ ہے یہ نشانی بڑے گھرانوں کی
ایک آدھ کتے کا بچہ ضرور ہوتا ہے

مذکورہ طالب علموں کی اصلاح کا واحد راستہ درآمد شدہ جوتوں میں پنہاں ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ اٹلی کے جوتے پوری دنیا میں کسی تعارف کے محتاج نہیں ،انہیں اگر روایتی استعمال سے ہٹ کر طلباء کی کردار سازی کے لیے استعمال کیا جائے تو خاطر خواہ نتائج حاصل ہو سکتے ہیں۔لیکن یہ طریقہ علاج والدین کی خواہش اور رضا سے مشروط ہے۔عام طور پر روشن دماغ اور زرخیز ذہن کے والدین اس طریقہ علاج کو پسند نہیں فرماتے جس کا خمیازہ انہیں بڑھاپے میں بھگتنا پڑتا ہے۔

طلباء کی خوبیوں میں ایک نمایاں خوبی دروغ گوئی بھی ہے۔تقریباً تمام طالب علم گھر بیٹھے معصوم والدین کو الّو بنانے میں خاص مہارت رکھتے ہیں۔جب وہ گھر میں اپنے تعلیمی نتائج بارے فرضی داستان گوئی میں مصروف ہوتے ہیں تو والدین اپنی بوڑھی آنکھیں پھاڑے اپنے بچوں کو حیرانی اور بے یقینی سے تک رہے ہوتے ہیں۔طلباء سے کبھی تاریخ،اسلامیات اور اردو بارے کوئی سوال مت پوچھیں کہ ان تینوں مضامین سے ان کا کوئی خاص واسطہ نہیں ہوتا۔وہ مذکورہ مضامین سے نفرت کرنے کی بجائے ان مضامین کے اساتذہ کو شدت سے نا پسند کرتے ہیں حالانکہ ان مضامین کی ایجاد یا دریافت میں معصوم استادوں کا قطعاً کوئی قصور نہیں۔

بات شروع ہوئی تھی اساتذہ اور طلباء کے مشترکہ پسندیدہ موسم سے۔اب تک آپ سمجھ ہی چکے ہوں گے کہ دونوں کا پسندیدہ موسم گرمیوں کی چھٹیوں کا موسم ہوتا ہے ۔ اس موسم میں طلباء و اساتذہ خواب ریبٹ (Rabbit)کے مزے لے سکتے ہیں۔ اگرچہ شیر لیگ کی حکومت کی آمد سے استاد بیچارے زیر عتاب ہیں۔کبھی ڈینگی کو ٹھکانے لگانے میں مصروف تو کبھی تقریری اور کھیلوں کے مقابلوں کی تیاریوں میں سرگرداں۔ یہاں موجودہ حکومت کی تذلیل ہر گز مقصود نہیںہے بلکہ ان کی تعریف ہے کہ انہوں نے مغلیہ دور کی یادیں تازہ کر دی ہیں یوں ہماری ثقافت کو جدید دور میں نوجوان نسل کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملے گا۔

Wajid Ali

Wajid Ali

تحریر : واجد علی