تحریر : روحیل اکبر اقامہ کی وجہ سے نااہلی ہونے کے بعد پاناما کا ہنگامہ بڑی تیزی سے اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہے کہ تقریبا17 سال بعد شریف خاندان پر کرپشن سے بھر پور ایک اور داستان کھل گئی جسے شیخ رشید تمام جرائم کی ماں بھی کہہ چکے ہیں حدیبیہ پیپر مل کرپشن اور لوٹ مار کی ایک نئی داستان ہے حدیبیہ کا جو کیس ابھی چلنا شروع ہوا ہے اس میں وزیر خزانہ پہلے ملزم اور بعد میں میاں برادران کے خلاف بطور وعدہ معاف گواہ اپنا بیان بھی ریکارڈ کرواچکے ہیں اب ہم آتے ہیں حدیبیہ ریفرنس کی طرف کہ یہ ہے کیا چیز جس کے خطرے سے پنجاب کے خادم اعلی بھی دوچار ہے جو کہتے ہیں کہ ایک دھیلے کی بھی کرپشن ثابت ہو جائے تو مجھے پھانسی چڑھا دینا بلکہ اوربھی بہت کچھ کہہ چکے ہیں شائد اس لیے کہ دھیلے کو ختم ہوئے اب ایک عرصہ ہوچکا ہے اور ہماری نئی نسل دھیلے سے واقف بھی نہیں ہے 1997 میں جب نواز شریف دوسری مرتبہ وزیراعظم بنے تو شریف فیملی کی حدیبیہ پیپرزمل ” خسارے ” میں چل رہی تھی۔ اس کے کل اثاثہ جات کی ویلیو صرف 9 کروڑ 57 لاکھ جبکہ کل خسارہ 80 کروڑ سے بھی زائد ہوچکا تھا۔
حدیبیہ پیپرز مل کے نام پر پاکستان کے سرکاری بنکوں سے پبلک منی کا کروڑوں کا قرض لیا جاچکا تھا جو کہ خسارے کی وجہ سے ‘ ڈیفالٹ ‘ یعنی دیوالیہ ہونے والی کمپنی کی وجہ سے واپس نہیں کیا گیا۔پھر چند مہینوں بعد اس کمپنی کے اکاؤنٹس میں تقریباً ساڑھے 64 کروڑ روپے کی ایک بہت بڑی ٹرانزیکشن نظر آنا شروع ہوئی جسے ‘ شیئر منی ڈیپازٹ ‘ کی کیٹیگری میں شو کیا گیا تھا۔چونکہ حدیبیہ پیپرز مل کو بنایا ہی اسی مقصد سے گیا تھا کہ اس کے ذریعے قرضے لے کر خسارے کی آڑ میں معاف کروا لئے جائیں اور پھر اس کمپنی کے اکاؤنٹس کو استعمال کرتے ہوئے منی لانڈرنگ کے زریعے کالے دھن کو سفید کیا جا سکے۔
اس لئے نوازشریف نے اپنے تمام فیملی ممبران کو حدیبیہ کا شئیر ہولڈر بنا رکھا تھا جس میں شہبازشریف سے لے کر ان کی والدہ، بھابھیاں اور مریم نواز تک کے نام بینیفشریز میں شامل تھے۔1996۔97 میں کئی گئی وہ ساڑھے 64 کروڑ روپے کی ٹرانزیکشن نوازشریف کے گلے پڑ گئی اور آج اگر پانامہ اور لندن فلیٹس سے بری بھی ہوجائے، حدیبیہ مل اس کے سر پر لٹکتی مستقل تلوار ہے جس سے نہ صرف نوازشریف بلکہ شہبازشریف بھی نااہلی کی زد میں آچکا ہے۔ویسے تو حدیبیہ مل کی اس ٹرانزیکشن اور طریقہ واردات کی وضاحت اسحاق ڈار نے 2000 میں جمع کرائے گئے اپنے بیان حلفی میں تفصیل سے بیان کردی تھی لیکن آپ لوگوں کی آسانی کیلئے دوبارہ بتائے دیتا ہوں کہ کرپشن کے ان اعلی دماغوں نے کیسے کیسے کارنامے سرانجام دیئے۔1۔ اسحاق ڈار، اس کے اسسٹنٹ اور اسحاق ڈار کی بیوی کے بھانجے کے زریعے لندن میں مقیم قاضی فیملی کے پاسپورٹ کاپیوں کی بنیاد پر کئی بنکوں میں قاضی فیملی کے افراد کے نام پر فارن کرنسی اکاؤنٹس کھولے گئے۔2۔ پھر ان اکاؤنٹس میں شریف فیملی کی کالے دھن کی رقم ڈیپازٹ کی گئی جو کہ کئی ملین ڈالرز میں بنتی ہے۔3۔ پھر سعید احمد نامی اسحاق ڈار کے ایک پرانے پارٹنر اور موجودہ صدر نیشنل بنک کے نام پر ایک پرسنل اکاؤنٹ کھولا گیا۔4۔ جعلی ناموں سے بنے اکاؤنٹس کے درمیان رقوم کو ٹرانسفر کیا گیا جس سے ایک ہی رقم بار بار ایک اکاؤنٹ سے دوسرے اکاؤنٹ میں ڈالی گئی، پھر وہاں سے تیسرے، چوتھے اور پھر واپس پہلے اکاؤنٹ میں ڈال دی گئی۔
جب کافی ساری ٹرانزیکشنز ہو گئیں تو پھر ان سب اکاؤنٹس سے رقومات نکال کر سعید احمد کے اکاؤنٹ میں ڈیپازٹ کردی گئیں۔ یہ منی لانڈرنگ کا ایک مروجہ طریقہ ہے جسے ” لیئرنگ ” یا ‘ تہہ داری ‘ کہہ سکتے ہیں۔۔ اس کی مدد سے سرکلر ٹرانزیکشنز کرکے ریگولیٹرز اور آڈیٹرز کو چکمہ دیا جاتاہے تاکہ وہ اصل سورس تک نہ پہنچ سکیں۔5۔ سعید احمد کے اکاؤنٹ میں جب ایک اچھی خاصی بڑی رقم آ گئی تو پھر اس کو بطور زرضمانت استعمال کرکے ہجویری مضاربہ کے نام پر قرض لیا گیا۔
ہجویری مضاربہ اسحاق ڈار کی کمپنی تھی جو کہ باقاعدہ 90 کی دہائی میں اس کے نام کے ساتھ رجسٹرڈ تھی۔6۔ جب ہجویری مضاربہ کو قرض کی رقم مل گئی تو پھر اس قرض کو حدیبیہ پیپرزمل کے نام پر ٹرانسفر کرکے ساڑھے 64 کروڑ روپے حدیبیہ پیپرزمل کے اکاؤنٹ میں منتقل کردیئے گئے۔ یوں کالا دھن جو سعید احمد کے اکاؤنٹ میں جمع ہوا، وہ بنک قرض کی شکل میں ایک سفید دھن میں تبدیل ہو کر حدیبیہ کے اکاؤنٹس میں آگیا جہاں سے شریف فیملی نے اسے اپنے ذاتی استعمال کیلئے خرچ کرنا شروع کر دیا۔
حدیبیہ خسارے میں ہی چلتی رہی، دیوالیہ ظاہرکرکے حکومت کے زریعے اپنے قرض خود ہی معاف کروا لئے، سعید احمد کے اکاؤنٹ میں موجود زر ضمانت رقم ریلیز ہوگئی جسے فارن کرنسی کی مد میں بیرون ملک ٹرانسفر کردیا گیا۔۔۔یوں جو کالا دھن موٹروے اور پیلی ٹیکسی سکیم کے زریعے اکٹھا ہوا تھا، وہ فارن کرنسی کی شکل میں بیرون ملک چلا گیا اور اس پیسے کو دکھا کر قومی بنکوں سے قرض لے کر انہیں معاف بھی کروا لیا گیا۔ کرپشن کے حوالے سے اس جینئس فیملی نے دنیا کو دکھا دیا کہ سیاست میں عوام کو بیوقوف بنا کر کیسے لوٹ مار کی جاتی ہے اور پھر اسی پیسے کے زور پر کیسے اداروں کو تباہ اور وہاں پر بیٹھے ہوئے افراد کو خریدا جاسکتا ہے بشرطیکہ یہ نوازشریف کمائے اور اس کا ایڈوائزر اسحاق ڈار ولد چنن دین سائیکلوں والا ہو۔لیکن وہ کہتے ہیں نا کہ قدرت ہر مجرم سے کوئی نہ کوئی غلطی ضرور کروا دیتی ہے، نوازشریف سے بھی وہ ساڑھے 64 کروڑ روپے بطور ‘ شئیر ڈیپازٹ منی ‘ حدیبیہ کے اکاؤنٹس میں دکھانے کی غلطی ہوگئی اور آج یہ رقم اسے نااہل بھی کروا سکتی ہے اور جیل میں بھی ڈال دے گی۔۔۔ نہ صرف نوازشریف بلکہ اس کا بھائی شہبازشریف اور اسحاق ڈار، تینوں بری طرح رگڑے جا سکتے ہیں۔حضور، یہی ہیں وہ زرائع اور وسائل جن سے نوازشریف نے بیرون ملک جائیدادیں بنائیں !!!