تحریر : پروفیسر مظہر خلیل جبران نے کہا ”حق دو اشخاص کا محتاج ہوتا ہے ،ایک وہ جو اِس کا اظہار کرے اور دوسرا وہ جو اُسے سُن سکے ”۔ ہمارے ہاں مگر ایسا کوئی رواج ہی نہیں ۔اگر کوئی حق بات کہتا بھی ہے تو ملفوف ،سات پردوں میں چھپی ہوئی ۔ہمیں تو کسی کی ذات میں برائیاں بھی نظر آتی ہیں تو صرف اُس وقت جب وہ زیرِ عتاب ہو جیسے میاں نواز شریف اور اُن کا خاندان ۔سرِشام نیوزچینلز کے بزرجمہر آتشیں ہتھیاروں سے لیس ہو کر بیٹھتے ہیں اور رات گئے تک اُن کے دہن آگ اُگلتے رہتے ہیں ۔صرف یہ ارسطوانِ دہر ہی نہیں ،مزاحیہ پروگراموں کے اینکرز بھی اخلاق کے سارے سلیقے ،سارے قرینے بالائے طاق رکھ کر پھکڑ پن ،جگت بازی اور ذومعنی جملوں کی بھرمار کرکے لوگوں کی پگڑیاں اچھالتے رہتے ہیں۔ایسا کرنا شائد اُن کا حق ٹھہرا کہ جب اعلیٰ ترین عدالت کسی ملزم کو گاڈ فادر اور سسلین مافیا جیسے القابات سے نوازے تو پھراُن کی پیروی لازم۔ دُنیا کی تاریخِ عدل کسی بدترین مجرم کے بارے میں بھی ایسے الفاظ استعمال نہیں کرتی جیسے پانامہ کیس کے فیصلے میں میاں نوازشریف کے بارے میں استعمال کیے گئے۔ یہی وجہ ہے کہ نوازلیگ کو پانچ رکنی بنچ کے فیصلے میں تعصب کی بُو آتی ہے اور وہ آہستہ آہستہ تصادم کی طرف بڑھ رہی ہے جو ملک کے لیے بہتر ہے نہ قوم کے لیے۔ قوم کا ذکر تو سہواََ آگیا وگرنہ ہر کسی کو معلوم کہ اِس کا کاسۂ اُمید اور کشکولِ گدائی پہلے بھی خالی تھا،اب بھی خالی ہے اور شاید اُس وقت تک خالی ہی رہے گا جب تک فرانس جیسا خونیں انقلاب نہیں آ جاتا۔
لاریب پاکستانی سیاست میں عجیب و غریب رنگ بھرنے اور غیرپارلیمانی زبان استعمال کرنے کے بانی عمران خاں ہیں ۔وہ ایک تحریک لے کر اُٹھے ،نام اُس کا ”تحریکِ انصاف” ہے لیکن اُن کی اپنی صوبائی حکومت (خیبرپخونخوا) میں بھی کہیں انصاف نظر نہیں آتا ۔ انصاف ہوتا نظر بھی کیسے آئے کہ وہ تحریکِ انصاف تو لَد چکی جس کو ساتھ لے کر کپتان صاحب انصاف کی تلاش میں نکلے تھے ۔موجودہ تحریکِ انصاف تو پرویز مشرف ،قاف لیگ اور پیپلزپارٹی کا ملغوبہ ہے۔ کپتان صاحب کے دائیں بائیں شاہ محمود قریشی، جہانگیر ترین،امتیاز صفدر وڑائچ، نذر گوندل، صمصام بخاری، خورشید محمود قصوری، آصف احمد علی، فردوس عاشق اعوان ،غضنفر گِل ،نورعالم ،راجہ ریاض ،نعیم بخاری ،بابر اعوان اور فوادچودھری جیسے لوگ نظر آتے ہیں۔ خود وزیرِاعلیٰ خیبرپختونخوا بھی گھاٹ گھاٹ کا پانی بیئے ہوئے ہیں۔ کیا کپتان صاحب اِس ٹیم کے ساتھ انصاف کی تلاش میں نکلے ہیں؟۔ کہا جا سکتا ہے کہ
کہیں کی اینٹ ، کہیں کا روڑا بھان متی نے کنبہ جوڑا
کپتان صاحب ”نیاپاکستان” بنانے نکلے تھے لیکن پرانے پاکستان کو اُدھیڑ کے رکھ دیا۔ 2013ء سے اب تک وہ خود چین سے بیٹھے ،نہ کسی کو بیٹھنے دیا ۔ میاں نواز شریف کی نااہلی سے پہلے وہ کہتے تھے کہ نوازلیگ اکثریت میں ہے ۔وہ نیا وزیرِاعظم منتخب کر لے ۔جب شاہد خاقان عباسی نے وزارتِ عظمیٰ سنبھالی تو اُنہوں نے کہنا شروع کر دیا کہ شاہد خاقان عباسی تو ”ڈَمی” ہے ،طاقت کا محورومرکز اب بھی میاں نوازشریف ہے اِس لیے قوم کو قبل از وقت انتخابات کی طرف جانا چاہیے ۔جب وہ یہ کہتے ہیں کہ قبل از وقت انتخابات کا مطالبہ غیر آئینی نہیں تو دراصل وہ آدھی ، ادھوری بات کرتے ہیں ۔آئینی طور پر قبل از وقت انتخابات صرف اُسی صورت میں ممکن ہیںجب قومی اور چاروںصوبائی اسمبلیاں تحلیل ہو جائیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا ایسا ممکن ہے؟۔
صوبہ پنجاب ،بلوچستان اور مرکز میں نوازلیگ کی حکومت ہے ۔ وہ کسی بھی صورت میں اپنی حکومتیں تحلیل نہیں کرے گی۔ سندھ میں پیپلزپارٹی کی حکومت ہے جسے قبل از وقت انتخابات کا کوئی فائدہ نظر نہیں آتا۔ اِن دنوں پیپلزپارٹی پنجاب میں اپنے قدم جمانے کی بھرپور کوشش کر رہی ہے جس کے لیے اُسے وقت درکار ہے ۔ اکابرینِ پیپلزپارٹی خوب جانتے ہیں کہ اگر قبل از وقت انتخابات ہوئے تو پنجاب میں اِن انتخابات کا اگر کچھ فائدہ ہوسکتا ہے تو صرف تحریکِ انصاف کو۔ اِس لیے وہ سندھ حکومت کی تحلیل پر راضی نہیں ہوگی۔ صرف خیبرپختونخوا کی صوبائی حکومت تحلیل ہو سکتی ہے جہاں ضمنی نتخابات کروائے جا سکتے ہیں۔اِسی لیے پرویز خٹک نے کہا ہے کہ اگر سبھی اسمبلیاں تحلیل ہو جائیں تو وہ بھی اپنی حکومت تحلیل کرنے کے لیے تیار ہیں۔ یاد رہے کہ جب 2014ء کے دھرنے کے دوران خیبرپختونخوا کی اسمبلی تحلیل کرنے کی بات ہوئی تو پرویز خٹک نے صاف انکار کر دیاتھا۔ اِس لیے ہم سمجھتے ہیں کہ کپتان صاحب کا یہ مطالبہ صرف مطالبہ ہی رہے گا، اِسے کہیں سے پذیرائی نہیں ملے گی۔
دراصل عمران خاں میاں نوازشریف کی نااہلی ،نواز لیگ میں کچھ لوگوں کی بددلی اور غیرمصدقہ اطلاعات کے مطابق ٹوٹ پھوٹ کا فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔اُن کا مطمح نظر مارچ میں ہونے والے سینٹ کے انتخابات سے پہلے عام انتخابات ہیںتاکہ نوازلیگ سینٹ میں اکثریت حاصل نہ کر سکے۔ اُن کے ذہن میں آج بھی یہ امر راسخ ہے کہ اگر 2013ء کے انتخابات میں دھاندلی نہ ہوتی تو وہ دو تہائی اکثریت حاصل کر لیتے۔ حالانکہ اُس وقت کے تمام قومی و بین الاقوامی سرویز کے مطابق کپتان صاحب کو اُتنا ہی مینڈیٹ ملا ،جتنا کہ ظاہر کیا جا رہا تھا۔ سپریم کورٹ کے فُل بنچ نے بھی یہی فیصلہ دیا کہ انتخابات میں دھاندلی نہیں ہوئی۔ کپتان صاحب نے بظاہر تو یہ فیصلہ قبول کر لیا لیکن اُن کا قلب وذہن آج بھی یہ فیصلہ قبول کرنے کو تیار نہیں۔ اِسی لیے وہ سمجھتے ہیں کہ قبل از وقت انتخابات سے وہ دو تہائی اکثریت حاصل کرکے مسندِ اقتدار پر براجماں ہو سکتے ہیں لیکن یہ اُن کی خام خیالی ہے ۔ مسلم لیگ نواز پنجاب میں آج بھی اُتنی ہی مقبول ہے جتنی 1913ء میں تھی۔
میاں نوازشریف کی نااہلی کے بعد تو اُس میں ہمدردی کا عنصر بھی شامل ہوگیا ہے۔ رہی نوازلیگ میں ٹوٹ پھوٹ کی بات تو ”فصلی بٹیرے” ہر سیاسی جماعت میں ہوتے ہیں جن کے” اُڑ جانے” سے کچھ فرق نہیں پڑتاکیونکہ ووٹ بینک میاں نوازشریف کا ہے ،فصلی بٹیروں کا نہیں۔ جب تک وہ کستان میں ہیں (خواہ جیل ہی میں کیوں نہ ہوں) نوازلیگ متحد ہی رہے گی۔ شیخ رشید اور اُن جیسی سوچ رکھنے والے چند تجزیہ نگاروں کے کہنے سے وہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار نہیں ہوگی۔ اب عمران خاں کے پاس ایک ہی آپشن باقی بچتا ہے جو اُنہیں مرغوب بھی ہے اور وہ ہے سڑکوں پر نکل کر حکومت پر دباؤ ڈالنا ۔ایسی صورت میں نوازلیگ تو ٹَس سے مَس نہیں ہوگی البتہ مارشل لاء لگ سکتا ہے لیکن یہ بھی ممکن نظر نہیں آتا۔ افواجِ پاکستان اِس وقت ملکی سرحدوں کی حفاظت اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مصروف ہیں ۔ اِن حالات میں مارشل لاء کا دور دور تک کوئی امکان نہیں۔ ویسے بھی چیف آف آرمی سٹاف جنرل باجوہ صاحب کی جمہوریت سے کمٹمنٹ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔