تحریر : لالہ متین علی آج کل تفریح کے نام پر ہونے والی غیر ضروری اور غیر صحت مندانہ سرگرمیوں کا سب سے بڑا شکار نوجوان بن رہے ہیں۔ موبائل، انٹرنیٹ اور کمپیوٹر کے بے دریغ اور غیر ضروری استعمال نے نوجوانوں کو نہ صرف بے راہ روی اور نفسیاتی مسائل میں الجھا دیا ہے بلکہ مجرم بنانے میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔وقت سے پہلے بالغ ہونے کی کوشش کرنے والے نوجوانوں کے لئے باطل نے ہر حربہ استعمال کر لیا ہے۔ انٹرنیٹ کے ذریعہ اخلاق سوز لٹریچر عام کیا جا رہا ہے ، فحاشی وبے حیائی کی ترویج کی جارہی ہے۔
الیکٹرانک میڈیا کی دنیا میں کوسوں دورتک حیاء کا نام و نشان نظر نہیں آتا۔اہم اور قیمتی ویب سائٹس کے سرفنگ میں ایڈورٹائزمینٹ کے ذریعے فحش مواد کی تشہیر، پورن فلموں کی کِلپس، شائع کر کے متوجہ کیا جاتا ہے۔ تاکہ وہاں تک ازخود رسائی ہوجائے۔ ایک بات یاد رکھیں۔۔! ہیجان انگیز فلمیں ، فحش مناظر اور عریانیت پر مبنی پروگرام دیکھے جائیں تو یہ دینی ودنیوی ہر دو لحاظ سے مضر ونقصاندہ ، ناجائز وحرام ہے۔
اسی لئے دین اسلام نے فتنوں کے سد باب کے لئے ان تمام ذرائع سے اجتناب کرنے کا حکم فرمایا جن سے فتنے وقوع پذیر ہوتے ہیں۔انٹرنیٹ کی مثال ایک وسیع وعریض میدان کی طرح ہے جس میں ایمان اخلاق اور عقول انسانی کا امتحان ہے اس میدان میں خیر کم اور شر اپنے تمام انواع و اقسام کے ساتھ بکثرت موجود ہے اور اس انٹرنیٹ کے سامنے انسان آزاد ہے جیسے چاہے اپنی زبان و نظر اپنے ہاتھ کان وغیرہ کو استعمال کرے لیکن ایک انسان جو صاحب ایمان ہے اپنی انجام وعاقبت کا فکرمند ہے اپنے رب کی معیت و رقابت کا استحضار رکھتا ہے اور اپنے دل میں یہ کامل یقین رکھتا ہے کہ میرا رب میرے تمام حرکات وسکنات پر واقف و خبردار ہے اور میرے پاس جو بھی ظاہری و باطنی نعمتیں موجود ہیں۔
سب میرے رب کی طرف سے ایک امانت ہیں جس کو میں اپنی خواہش کے مطابق استعمال نہیں کرسکتا اور کل میں نے اپنے رب کو ذرہ ذرہ کا حساب دینا ہے توایسا انسان انٹرنیٹ کے اس میدان میں ضرورت کے لحاظ سے بڑی احتیاط سے قدم رکھے گا اور اس میں موجود شرور وآفات سے اپنے آپ کو بچانے کی مکمل کوشش کرے گا انٹرنیٹ کے اندر موجود شرور وفتن سے بچنے کے لیے ایک مسلمان مرد و عورت کو چند امور ونصائح کی رعایت وپابندی بہت ضروری ہے۔1۔ مومن مرد و عورت کا اصل کمال یہ ہے کہ اس کے پاس گناہ و معاصی کے تمام مواقع میسر ہوں لیکن ا? تعالیٰ کا خوف اور اپنی آخرت کی فکر سامنے رکھ کر وہ اس گناہ سے دور رہے تو یہ اصل کمال ہے اور اسی پر اجر و ثواب کا وعدہ ہے انٹرنیٹ کی مثال اس طرح سمجھنی چائیے جس طرح نفس امارہ ہے یعنی وہ نفس جو بہت زیادہ برائی اور گناہ پر ابھارتا ہے یہ نفس ہم سب کے ساتھ موجود ہے لیکن ہمارا دشمن ہے ایسا ہی انٹر نیٹ ہے جس طرح نفس امارہ کو نیکی اور طاعت و خیر کے کاموں میں لگانے کا ہمیں حکم ہے اسی طرح انٹر نیٹ میں جو بے پناہ شرور موجود ہیں اس سے بچنے کی کوشش کریں اور خیر وطاعت کے جو ذرائع و مواقع اس میں موجود ہیں اس میں اپنا وقت لگائیں تو ان شائ ا? یہی چیز جس میں شر بہت زیادہ ہے خیر اور اجر وثواب کا باعث بن جائے گا۔2۔غض بصر یعنی آنکھوں کی اور اپنے نظر کی حفاظت کرنا جتنی بھی ناجائز وقبیح تصاویر اور مناظر ومواقع ہیں ان سے اپنے نظر کی حفاظت کرنا اور اگر بلا قصد و ارادہ سامنے آجائیں تو اس پر غض بصر لازمی ہے یہی ا? تعالی کا حکم ہے اور اسی میں راحت و سکون قلب ہے۔
آنکھ دل کا آئینہ ہے آنکھ کو اگر آزاد چھوڑ دیا جائے تو دل کی حالت کو خراب کردیتا ہے۔3۔ انٹرنیٹ کی دنیا میں بڑا فتنہ شہوات ولذات کا ہے جو اکثر ہیجانی مناظر کی رغبت سے شروع ہوتا ہے اور غیر محسوس طریقے سے عورت ، مال ، منصب جاہ ، ظلم تعدی ، وغیرہ تک لے جاتا ہے۔اس کا علاج یہ ہے کہ ا? تعالی کے وعدہ و وعید کو سامنے رکھے اور اس کی معیت کا استحضار ویقین پیداکرے۔آخر میں یہ عرض ہے کہ نوجوانوں کو اخلاقی اور عقلی سطحوں پر برباد کرنے میں ایک طرف خودکارآزادی ہے، تو دوسری طرف والدین کی کم علمی اور جدید ٹیکنالوجی سے ناآشنائی کی وجہ سے یہ زہر پوری نسلِ نو کے جسم میں سرایت کرتا جا رہا ہے۔
نوجوانوں کی تعلیم و تربیت اور ان کی سوچ کو مثبت بنانے میں والدین اہم کردار ادا کر سکتے ہیں اور ایسا کرنا ان کے لئے فرض کا درجہ رکھتا ہے۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کہ کمپیوٹر، انٹرنیٹ، موبائل اور سیر وتفریح نوجوانوں کے لئے ضروری ہے، لیکن حد سے زیادہ کسی بھی چیز کا استعمال نقصان کا باعث بنتا ہے۔ نوجوان کسی بھی ملک کا قیمتی سرمایہ ہے، جس کی سوچ کے ساتھ قومی تشخص بنتا یا بگڑتا ہے۔ اور اس حقیقت سے دنیا تو کبھی کی آگاہ ہو چکی لیکن ہم آج بھی سراب کے پیچھے بھاگ رہے ہیں۔ مثبت اور تعمیری سوچ کے لئے رہبران قوم، قائدین، اور خصوصاً والدین کو ایک قدم آگے بڑھ کر نوجوانوں کا ہاتھ تھامنا ہوگا کیوں کہ اس چیز کی جتنی آج ضرورت ہے پہلے کبھی نہیں تھی۔