اسلام آباد (جیوڈیسک) مذہبی جماعت کو دی گئی ڈیڈ لائن ختم ہونے کے بعد انتظامیہ حرکت میں آ گئی ہے۔ حکام کی جانب سے راولپنڈی پولیس کو ہائی الرٹ رہنے کا حکم دیتے ہوئے ایف سی اور رینجرز کو بھی طلب کر لیا گیا ہے۔ دنیا نیوز کے ذرائع کے مطابق اسلام آباد کے کچھ داخلی راستے کنٹینرز سے بند کر دیے گئے ہیں جبکہ آئی ایٹ اور فیض آباد کے اطراف کے مکینوں کو گھروں میں رہنے کی ہدایت کی گئی ہے۔
راولپنڈی انتظامیہ نے دھرنے والوں سے رابطہ کر کے ان کی 17 رکنی شوریٰ کے نمائندوں سے ملاقات کی ہے۔ ذرائع کے مطابق انتظامیہ نے آخری کوشش تک مذاکرات جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ دھرنے کے شرکا کو پرُ امن طور پر متبادل جگہ دینے کی پیشکش کی ہے۔ اس سلسلے میں راولپنڈی کی بڑی درگاہوں اور مدارس کے منتظمین کو بھی اعتماد میں لیا گیا ہے۔
رینجرز کے 1000 اہلکار آپریشن کیلئے پولیس کی معاونت کرینگے۔ رینجرز کو پولیس اور ایف سی کے ہمراہ مختلف مقامات پر تعینات کیا جائے گا۔ ادھر امریکا، یورپ اور دیگر غیر ممالک سفارتخانوں نے بھی اپنے باشندوں کیلئے ایڈوائزری جاری کر دی ہے۔ ایڈوائزری میں سفارتی عملے اور باشندوں کو غیر ضروری طور پر باہر نہ نکلنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ اسلام آباد انتظامیہ کی جانب سے وفاقی دارالحکومت کے تمام ہسپتالوں میں سٹاف کو غیر معمولی حالات کے باعث الرٹ کر دیا گیا ہے۔
دوسری جانب وفاقی وزیرِ داخلہ احسن اقبال نے مذہبی جماعتوں کے کارکنان کو ایک بار پھر مذاکرات کی دعوت دیتے ہوئے کہا ہے کہ دھرنے کے شرکا ملک اور دنیا کو غلط پیغام دے رہے ہیں۔ اگر دھرنا ختم نہ ہوا تو حکومت کو مجبوراً عدالتی حکم پر عملدرآمد کرنا ہو گا۔ ان کا کہنا تھا کہ دھرنے سے ملک کی بدنامی ہوئی۔ شرپسند چاہتے ہیں کہ ماڈل ٹاؤن جیسا واقعہ دوبارہ ہو۔
احسن اقبال نے کہا کہ دھرنے والوں نے صرف جلوس نکالنے کا کہا تھا۔ حلف نامے کی اصل شکل میں بحالی کے بعد تنازع کھڑا کرنا درست نہیں ہے۔ ریاست کو یرغمال بنایا گیا تو برداشت نہیں کیا جائے گا۔ وزیرِ داخلہ کا کہنا تھا کہ ختمِ نبوت کی مہر قیامت تک پاکستان کے آئین پر لگ چکی ہے جسے اب کوئی نہیں تبدیل کر سکتا۔