تحریر : عبدالجبار خان دریشک انصاف اور قانون کا مطلب ہے اس کی بالادستی قائم ہو اور ریاست کے ہر فرد پر اس کا اطلاق ہوتا ہو۔ جبکہ ریاست کے ہرفرد کی ذمہ داری ہو تی ہے کہ وہ ریاست کے قانون کا احترام کریں۔ ریاستوں اور ملکوں کے کے قوانین اس لئے بنائے جاتے ہیں کہ اس ملک و ریا ست کے با شند ے ان قوانینکو مد نظر رکھتے ہو ئے اپنی زندگی کے افعال رہن سہن اور روز گار سب کچھ ملکی قانون مطابق کر یں۔اور ریاست کی یہ ذمہ داری ہوتی ہے جو قوانین اس نے تشکیل دیے ہیں اگر ان کو کوئی توڑتا ہے تو اس کو قرار واقعی سزا دے کہ کوئی دوسراقانون توڑنے کا سوچے بھی نہ ‘ اس کے علاوہ یہ بھی ذمہ داری ہو تی ہے کہ وہ عوام کی جان و مال کی حفاظت کر نے ساتھعوام کی فلاح بہبود کے لئے موثر اقدامات اٹھائے تاکہ ریاست کے کسی بھی فرد کو قانونی شکنی کرنے کی ضرورت ہی نہ پیش آئے‘ اور قانون سب کے لئے برابر ہو جو کسی شخصیت عہدے اور دولت کے آگے بھی روکاوٹ نہ بن سکے۔ لیکن ہمارے ہاں قانوں بھی طبقات میں تقسیم ہو چکا ہے غریب کو انصاف ملتانہیں پر طاقتور اور امیر کو مل جاتا ہے۔ اسی طرح طاقتور کا کوئی کچھ بگاڑ نہیں سکتا پر غریب ناجائز پھانسی چڑھ جاتا ہے۔
11 نومبر کو ایک انوکھا واقع پیش آیا۔ایک تھانے میں ایک شخص کے خلاف مرغی کے ساتھ بدفعلی کی ا یف آئی آر درج کی گئی جس میں دو دفعات 377 ت پ جو کہ جرائم خلاف وضع فطری پر لگائی جاتی ہے جبکہ دوسری 429 ت پ شامل کی گئی ہے جس کے مطابق کسی بھی نوعیت کے مویشی وغیرہ جس کی مالیت 50 روپے سے زیادہ ہو اس کو نقصان پہنچے پر لگائی جاتی ہے‘ پولیس نے ملزم کو بھی گرفتار کر لیا اور مرغی کی لاش کو اپنے تحویل میں لیتے ہوئے اسے ڈی این اے ٹیسٹ کے لئے فرانزک لیباٹری بھجوا دیا۔ یہ پاکستان میں قانون کی عمل داری کا ایسا پہلا واقعہ نہیں جو امیر وں کو انصاف کی فراہمی کے لئے پیش آیا ہو اس سے ملتی جلتی ایک ایف آئی آر کا انداج 2015 میں اسلام آباد کی ایک امیر زادی کے کتے کو غلط انجکشن لگانے پرڈاکٹر کے خلاف کا ٹی گئی تھی‘اور امیر زادی کے کتے کی غلط انجکشن سے مو ت ہو گئی اس میں بھی 477 ت پ کی دفعہ شامل کی گئی تھی۔ اس نوعیت ایف آئی آر میں بہت کم حقیقت ہوتی ہے اور ذاتی مخالفت یا سیاسی دشمنی نکالنے کے لئے درج کروائی جاتی ہیں۔ ایسے ہی ایک زمانے میں کسی مشہور چور نے جب چوری سے توبہ کی تو اس کے رسہ گیر نے اس کو بدنام کرنے کی خاطر گدھا چوری کا جھوٹا مقدمہ درج کروا دیاتھا ۔
یہاں قانون اور اداروں پر طاقتور لوگوں کی حکمرانی ہے غریب کی کوئی نہیں سنتا ہے ایک پاکستانی کوانصاف تو درکنار اسے اپنی پاکستانی ہونے کی شناخت ثابت کرنے کے لئے بھی در بدر کے دھکے کھانے پڑتے ہیں آپ اپنا قومی شناختی کارڈ بغیر سفارش اور رشوت کے نہیں بنوا سکتے ۔ہمارے علاقے ایک شخصہے جس عمر 50 سال ہے لیکن یہ پاکستانی تاحال قومی شناختی کارڈ سے محروم ہے وہ شخص راجن پور کے ایک دیہاتی علاقے کا رہائشیہے آج سے تقریباً 20 سال پہلے یہ بھٹہ خشت پر مزدوری کیا کرتا تھا گھروالوں اور بھائیوں سے کسی بات پر جھگڑا ہوا اس نے گھر جانا چھوڑ دیا۔ یہ جہاں مزدوری کرتا وہیں رہتا ایسے سلسلہ چلتا رہا گھر والوں اور بیوی بچوں کا خیال نہ رکھنے اور خرچ نہ دینے پر بیوی نے طلاق لے لی اور یہ کچھ عرصہ راجن پور میں مزدوری کرنے کے بعد کراچی چلا گیا۔ یہ عرصہ دس سال سے کراچی کی ایک فیکٹری میں کام کررہا ہے تین چار سال بعد جب یہ راجن پور آیا تو اس نے بتایا میراقومی شناختی کارڈ نہیں بن رہا‘ اس بتایا کہ وہ ایک دن شناختی کارڈ کے دفتر سات بجے پہنچ گیا تین گھنٹے لائین میں کھڑا ہونے کے بعد جب اس کی باری آئی تو کھڑی کی دوسری طرف بیٹھے خوش لباس کپڑوں میں ملبوس بابو نے اسے اتنا کہا تمہارا شناختی نہیں بن سکتا اسغریب نے وجہ پوچھی تو اس خوش لباس با بو نے کہا جاو ¿یہاں سے تمہارا شنا ختی کارڈ نہیں بن سکتاتم جاتے ہو یا دراغے کو آواز دوں بچارا سارا دن دھکے کھانے کے بعد بالاآخر ناکام لوٹ آیا‘ اس نے بتایا کہ شنا ختی کارڈ نہ ہو نے کی وجہ سے کراچی میں جگہ جگہ چیکنگ سے سخت دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ عام آدمی کے ساتھ جتنی بڑی زیادتی ہو جائے اس کی ساری زندگی انصاف کی خاطر دوڑتے ڈورتے ختم ہو جاتی ہے لیکن اسے انصاف نہیں ملتا۔ یہاں قوم کی بیٹیاں انصاف نہ ملنے پر عدالتوں اور تھانوں کے باہر خودکشی کر لیتی ہیں۔اس مر غی کے انصاف ساتھ انصا ف ہو رہا ہے اچھی بات ہے ہمارا مذہب جانووں کا خیال رکھنے اور ان کو تحفظ دینے کا حکم دیتا ہے ۔اور ان کے ساتھ بدفعلی کرنے والے کوتو عبرت ناک سزا ہونی چاییے اگرواقعی یہ بات سچ ثابت نہ ہوئی تو اس جھوٹے شخص کو بھی قرار واقعی سزا ہونی چاہیے جس نے نا جائز کسی پر توہمت لگا ئی ۔ پھر وہی بات کیا اس قوم کی بیٹی کو بھی انصاف ملے گا ؟جسے برہنہ کر کے گلیوں میں پھیر ایا گیا۔کیا مرغی کے مقدمہ کااندارج کر کے کہیں یہ تو ثابت کرنے کی کوشش نہیں کی جارہی ملک کا قانون جانوروں کو بھی تحفظ فراہم کرتا ہے۔ پھر اس بات کا کوئی جواب دے گا کہ یہی انصاف اس وقت کیوں نہیں ہوتا جب با اثر افراد پرندوں کا غیر قانونی شکار کرتے ہیں عربی شہزادے مہمان بن کر بے دردی سے مصوم پرندوں کا شکار کرتے ہیں تب ایف آئی آر درج کیوں نہیں ہوتی ہے؟
بات شناخت کی ہو رہی تھی تو اب بھی لاکھوں پاکستانی ایسے ہیں جن کی کوئی قومی شناختی کا رڈ نہیں ہے ‘ یہاں عوام کی سہولیات کے نظام کو کرپٹ اہلکاروں نے پیچیدہ بنا دیا ہے ایک ان پڑھ سادہ عام دیہاتی بچارہ کس کس دفتر کے دھکے کھائے اور کس کس کو بتائے کہ میں پاکستانی ہوں۔ جب اس شخص کو اس اہلکار نے کہا تمہارا شناختی کارڈ نہیں بن سکتا تو کیا وجہ ہے کیوں نہیں بن سکتا اس اہلکار کو کسی قسم کا شک تھا تو وہ پولیس میں اطلاع کرتااور اس دیہات کو تھانے میں بند کر وا دیتا کہ اس کا شنا ختی کا رڈ نہیں بن سکتا یہ پا کستا نی نہیں ہے پر افسوس کا مقام ہے پاکستان میں پاکستانیوں کے شناختی کارڈ نہیں بن سکتے پر افغانیوں دہشت گردوں کے بن سکتے ہیں ۔جب تک ملک میں قانون کا بول بالا نہیں ہو گا قانون سب کے لئے برابر نہیں ہوگا تب تک ایسے افراتفری ہی رہے گی اس کے علاوہ قانون پر عمل درآمد کے ساتھ لوگوں کی فلاح بہبود بھی پہلی ترجیع ہے جو جرائم کے خاتمے کا پہلا اقدام ہے۔ اور عوام کو وقت کی بچت ساتھ بروقت وفوری اورسستا انصاف ، بغیر رشوت کے دفتری کام کاج ہو جائیں یہ ہی سب سے بڑا فلاحی منصوبہ ہو گا ۔ہمیں غور کرنا اور سوچنا ہو گا جرائم کے محرکات کو سمجھتے ہوئے فلاحی منصوبوں اور عوام کو سہولیات دے کر ان کا سدباب کرنا ہوگا نہیں تو نہ انسانوں کو شناخت ملے گی اور نہ ہی مرغی کو انصاف ملے گا۔