مجھ کو معیوب سی لگتی ہیں تمہاری باتیں خود سے منسوب سی لگتی ہیں تمہاری باتیں جانے کیا بات ہے، کیا راز چھُپا ہے اِن میں کتنی معجوب سی لگتی ہیں تمہاری باتیں شام ہوتے ہی کسی درد میں ڈھل جاتی ہیں کتنی معتوب سی لگتی ہیں تمہاری باتیں جب کبھی ان میں شرارت کی جھلک ہوتی ہے کیسی محبوب سی لگتی ہیں تمہاری باتیں یہ گِلہ زاری رقیبوں سے، کبھی جاناں، کبھی دنیا سے فیض کے شعر کا اسلوب سی لگتی ہیں تمہاری باتیں