جنگ نوحہ جوان لاشوں کا یہ جو تہذیب کی کہانی ہے سب معیشت کی ترجمانی ہے کارخانوں کی چمنیوں کا دھواں ننگ و افلاسِ زندگانی ہے نُورِ سرمایہ کی یہ جلوہ گری میری آنکھوں کی خوں فشانی ہے کتنے قرنوں سے نسلِ انساں پہ جبر و وحشت کی حکمرانی ہے جنگ نوحہ جوان لاشوں کا امن نغمہء شادمانی ہے بات رستوں کی ہو یا منزل کی زندگی ہِجر کی کہانی ہے سامراجی گماشتوں سے کہو! اب یہ زنجیر ٹوٹ جانی ہے