تحریر : رانا اعجاز حسین چوہان بچوں کا عالمی دن منانے کے مقاصد تو بے شما ر ہیں جن میں بنیادی طور پر بچوں کی فلاح و بہبود کے حوالے سے شعور اجاگر کرنا، بے گھر بچوں کو بھی دیگر بچوں جیسی آسائشیں مہیا کرنا اوّل ترجیح ہے، لیکن خصوصی طور پر ان کی تعلیم، صحت ، تفریح اور ذہنی تربیت کے حوالے سے شعور اجاگر کیاجاتا ہے تاکہ بچے مستقبل میں معاشرے کے مفید شہری بن سکیں۔ اس دن سکول اور تعلیمی ادارے بچوں کو ان کے حقوق سے آگاہ کرنے کے لئے خصوصی تقریبات منعقد کرتے ہیں، اور اساتذہ اپنے شاگردوں میں تحریک پیدا کرتے ہیں کہ وہ سوچیں کہ ان میں اور دنیا کے دوسرے بچوں میں کیا فرق ہے، اور وہ کس طرح خود کو تعلیمی و سماجی لحاظ سے بہتر بنا سکتے ہیں۔ جبکہ والدین میں بچوں کی بہترین تربیت و پرورش کے لئے شعور بیدار کیا جاتا ہے کہ وہ ابتدائی عمر میں بچوں کوزیادہ سے زیادہ کھیلوں ،سیر وتفریح کے مواقع فراہم کریں تاکہ ان کی ذہنی وجسمانی نشوونما میں اضافہ ہو۔ اس دن بچوں کے حقوق کیلئے سرگرم سماجی تنظیموں کے زیراہتمام سیمینارز،واکس اور دیگر تقریبات کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے دسمبر 1954ء میں سفارشات پیش کی تھیں کہ تمام ممالک باقاعدہ طور پر بچوں کا عالمی دن منایا کریں گے، تاکہ دنیا بھر کے بچوں کے مابین بھائی چارے اور مفاہمت کی فضا ء کی حوصلہ افزائی کی جا سکے۔ بہت سے ممالک نے یو این او کی سفارشات کا خیرمقدم کیا اور اس وقت سے پاکستان سمیت دنیا بھر میں بچوں کا عالمی دن ہر سال 20 نومبر کو منایا جا تا ہے۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستان میں بھی بچوں کی فلاح و بہبود کیلئے بھی کام ہورہا ہے یا یہ سلسلہ صرف نعروں ،دعووں اور تقریروں تک ہی محدود ہے؟ ترقی یافتہ ممالک میں زیر تعلیم بچوں سے مار پیٹ یا ڈانٹ ڈپٹ سے کام نہیں لیا جاتا کیا ہمارے ہاں بھی یہی صورت حال ہے؟ کیا ہم بچوں کو ان کی صحت اور تفریح کی بنیادی سہولتیں مہیا کررہے ہیں؟ کیا ہم چائلڈ لیبر کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں؟یہ وہ سوالات ہیں جو ہر بچے کے ذہن میں جنم لے رہے ہیں اوراس وقت تک لیتے رہیں گے جب تک ان کو بنیادی سہولتیں مہیا نہیں کی جاتیں۔ ہمارے معاشرے میں ہمیشہ یہی کہا جاتا ہے کہ بچے قوم کا قیمتی سرمایہ ہیں ، بچے پھول کی مانند ہیں ان سے محبت سے پیش آناچاہئے، لیکن حقیقتاًکیا ہم اس قیمتی سرمائے کی قدر وقیمت سے واقف ہیں؟ اور ان کے بنیادی حقوق پور ے کر رہے ہیں؟ کیا ہم گھروں، ہوٹلوں اور دیگر کاروباری مراکز میں کام کرنے والے مجبور اور مظلوم بچوں سے اپنے بچوں جیسا سلوک کرتے ہیں؟ جبکہ یہ حقیقت ہے کہ موجودہ حکومت بچوں کی تعلیم پر خصوصی توجہ دے رہی ہے اور ان کو ہر ممکن سہولت فراہم کررہی ہے، تعلیمی اخراجات میں کافی حد تک کمی کی گئی ہے، لیکن کسی بھی کام کو پائیہ تکمیل تک پہنچانافردواحد کا کام نہیں اسکے لئے پوری چین کی ضرورت ہوتی ہے بچوں کو تعلیم کی طرف راغب کرناوالدین کا کام ہے ،جبکہ پڑھائی میں دلچسپی اساتذہ کرام کی ذمہ داری ہے،یہ اسی صورت ممکن ہے جب اساتذہ کرام بچوں پر خاص شفقت فرمائیں گے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ خواتین کی ترقی اوربچوں کے حقوق کاقریبی تعلق ہے ایک تعلیم یافتہ اورمعاشی طور پربااختیار خاتون اپنے گھر، خاندان کے ساتھ ساتھ ملک کی معاشرتی ومعاشی ترقی کے لئے بہتر طور پر کام کر سکتی ہے۔ عقل مند والدین اپنی اولاد کی تربیت پر گہری نظر رکھتے ہیں ان کو اچھا انسان بنانے کی کوشش کرتے ہیں حسن خوبی اور سلیقہ سے پیارو محبت سے تربیت کرتے ہیں۔ بچوں کی تربیت کا مرحلہ اتنا اہم ہے کہ اس کی ابتدا ماں کے پیٹ سے ہی شروع ہوجاتی ہے، جبکہ بے جالاڈ پیار بعض اوقات بچوں کے لئے نقصان دہ ثابت ہوتا ہے اور ان کے مستقبل کو تاریک کرسکتا ہے، اس کی وجہ موقع محل کی پہچان اور عدم پہچان ہے۔ والدین کو چاہئے کہ بچوں کی حرکات و سکنات اور ان کی سرگرمیوں پر نظر رکھیں۔ ان کا پسندیدہ مضمون کیا ہے؟ پسندیدہ کھیل کون سا ہے؟ فارغ وقت میں بچہ کیا کرتا ہے؟ والدین کے ساتھ اس کا تعلق کیسا ہے؟ بہترین تربیت کے حوالے سے بچے کی عمر کے لحاظ سے والدین کو باہم مشاورت ضرور کرنی چاہئے۔ بچوں کے تحفظ کے لئے گھروں اور معاشرتی ماحول کوبہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ اپنی نئی نسل کے روشن مستقبل کیلئے کام کرنا ہم سب کی ذمہ داری ہے،ہمیں اپنے ملک میں بچوں کو وہ تمام بنیادی حقوق مہیا کرنے ہوں گے جن سے وہ محروم ہیں۔
یہ درست ہے کہ بچے پھول کی مانند ہوتے ہیں، اور اکثر بچے اس لئے تعلیم حاصل نہیں کرپاتے کہ سکولوں میں مارپیٹ اور ڈانٹ ڈپٹ سے کام لیاجاتا ہے گو کہ اس پر بڑی حد تک قابو پا لیا گیا ہے لیکن دیہی علاقوں اور سرکاری تعلیمی اداروں میں یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ جبکہ یہ حقیقت ہے کہ سزا بچوں میں اصلاح پیدا نہیں کرتی بلکہ پڑھائی سے بیزار کرتی ہے۔ بچپن سے ہی اگر بچوں کی حوصلہ افزائی کی جائے تو یقینا ان کا مستقبل روشن ہوگا اور اگر بچپن ہی سے مارپیٹ اور ڈانٹ ڈپٹ کی جائے تو بچوں کی نہ صرف ذہنی جسمانی نشوونما رک جاتی ہے بلکہ ان کی خود اعتمادی بھی جاتی رہتی ہے۔جبکہ پاکستان میں اس وقت گھروں، چھوٹی فیکٹریوں، ہوٹلوں،کارخانوں، اینٹوں کے بھٹوں اور دوسرے کاروباری مراکز میں بڑی تعداد میں بچوں سے مشقت لی جارہی ہے ،جہاں بچوں سے 10سے12 گھنٹے تک کا م لیا جاتا ہے، انہیں نہ صرف نہایت گندے ماحول میں کام کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے بلکہ ان پر بے پناہ تشدد بھی کیا جاتا ہے۔
ان بچوں کو بہت ہی کم اجرت دی جاتی ہے۔ جس عمر میں بچوں کے ہاتھوں میں کتابیں ہونی چاہئیں کتابوں کی جگہ مختلف قسم کے اوزار ہیں جو کہ ان پھول جیسے بچوں کیساتھ سرا سرظلم ہے۔ بد قسمتی سے وہ طبقہ جو غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کررہا ہے بچوں کی پڑھائی میں دلچسپی نہیں لیتا، اور خود بچوں کو محنت مشقت کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ معصوم بچوں سے مشقت کی حوصلہ شکنی کرنا اور چائلڈ لیبر ایکٹ کی خلاف ورزی کے مرتکب افراد کے خلاف موثر کاروائی عمل میں لانا وقت کی اشد ضرورت ہے ۔ بدقسمتی سے ہم ہرسال 20 نومبر کے دن بچوں کا عالمی دن تو منا لیتے ہیں لیکن عملی سطح پر بچوں کی بہتری کے لئے کوششیں اور کاوشیں نہیںکرتے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ بچوں میں ایسا شعور اجاگر کیاجائے کہ جس سے بچے شوق سے تعلیم حاصل کریں ۔ تعلیم حاصل کرنے کی عمر میں محنت مشقت کرنے والے بچوں کو بھی پیار سے سمجھایاجائے تاکہ ان میں تعلیم حاصل کرنے کا شوق پیدا ہو۔ اور جو لوگ کسی مجبوری کے باعث بچوں کو تعلیم نہیں دلو اسکتے یا معاشی مسائل کے سبب بچوں سے پر مشقت کام کروانے پر مجبور ہیں ،ان کے بچوں پر خصوصی توجہ دی جائے اور ان بچوں کو زیور تعلیم سے آرا ستہ کرنے کے ساتھ ساتھ ان کا مناسب وظیفہ مقرر کیا جائے۔ ہمیں ” بچوں کا عالمی دن” منا کر خاموش نہیں بیٹھناچاہئے بلکہ عملی سطح پر ان بچوں کے لئے کام کرنے کی کوشش کرنی چاہیے، بلاشبہ بچے ہی ہمارا سرمایہ افتخار اورروشن مستقبل ہیں۔
Rana Aijaz Hussain
تحریر : رانا اعجاز حسین چوہان ای میل: ranaaijazmul@gmail.com رابطہ نمبر:0300-9230033