تحریر : ڈاکٹر سید صلاح الدین بابر بچوں کی تعلیم، صحت، تفریح اور ذہنی تربیت کے حوالے سے شعور اْجاگر کرنے کے لیے20نومبرکوبچوں کاعالمی دن منایا جاتاہے،اس دن کو منانے کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ دنیا بھر کے بچے مستقبل میں معاشرے کے سودمند شہری بن سکیں۔اقوام متحدہ اور دوسرے عالمی اداروں کے حقوق انسانی کی حمایت کے باعث بین الاقوامی تحریک کو تقویت ملی۔1989ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے بچوں کے منظور شدہ حقوق کااعلان کیا جبکہ 20نومبر 1990ء کو دنیا کے تقریباً 186 ممالک نے بچوں کے عالمی دن کی منظور شدہ حقوق کے مطابق باضابطہ حمایت کر کے اسے قانونی شکل دے دی اور ایک قرارداد کے ذریعے ہر سال 20 نومبر کو بچوں کا عالمی دن قرار دیا۔ہرسال 20نومبر کوپوری دْنیا میں بچوں کا عالمی دن بڑے جوش وجذبے سے منایا جا تا ہے۔تقاریب کا اہتمام کیا جاتا ہے،بچوں کے حوالے سے ان کی بہتری کے لئے غوروفکر کیاجاتاہے تقریریں کی جاتی ہیں اور ان پر عملدرآمد بھی ہوتا ہے لیکن ہمارے ہاںصورت حال خاصی مختلف ہے۔
یہ دن جس کا مرکز و محور بچہ ہے ہم اس کے لیے عملی طور پر کیا کر رہے ہیں؟میرے نزدیک ایک بچہ عکس ہوتا ہے اپنے والدین،معاشرے اور ملک کا۔وہ مستقبل میں ملک کی پہچان بنتا ہے۔میرا بحیثیت ماہر نفسیات اور ڈاکٹر بے شمار نفسیاتی مریض بچوں سے واسطہ رہتا ہے میں بچے کی بجائے والدین سے زیادہ سوال و جواب کرتا ہوں تاکہ معاملے کی تہہ تک پہنچ کر مسئلے کا حل تلاش سکوں۔بچہ خواہ کسی مذہب،فرقے اور نسل سے تعلق رکھتا ہواللہ پاک نے تمام انسانوں ایک ہی طریقہ کار کے تحت دنیا میں بھیجا ہے اور اور سب نے ایک مخصوص وقت گزار کردنیا سے کوچ کر جانا ہے۔بچہ ایک کلی کی مانند دنیا میں آتا ہے اور اسے کلی سے پھول بننے میں کیا عوامل اور ضروریات اور ماحول درکار ہے وہ مہیا کرنا والدین کی اولین ذمہ داری ہے۔والدین کا کام ایک مالی کی طرح ہے اگر وہ اس پودے کی خوب دیکھ بھال کرے گا تو اس نے نکلنے والی کونپلیں شاندار،جاندار اور خوشنما ہوں گی بصورت دیگر مرجھائے ہوئے پھول دیکھنے کو ملیں گے جس میں پھول کا کوئی قصور نہیں۔
بچوں میں پیدائشی بیماریاں بہت کم ہوتی ہیں دیگر تمام معاملات اور رویوں کے ذمہ داروالدین،رشتہ دار،عزیز، دوست،رہنے کی جگہ اور ارد گرد کا ماحول اور درس گاہ وغیرہ ہیں۔ایک بچے کو بہترین ماحول مہیا کیا جائے تو بچے کی شخصیت میں نکھار،اعتماد اور وقار دیکھنے کو ملتا ہے ۔ہمارے ہاں ابتدائی سطح پر والدین اور اساتذہ میں کسی حد تک رابطہ رہتا ہے اور بچے کی بہتری کے لیے تجاویز پر کچھ غور و فکر ہو جاتا ہے مگر کالج اور یونیورسٹی سطح پر والدین بچوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیا جاتا ہے جس سے کئی مسائل جنم لیتے ہیں۔میں سمجھتا ہوں کہ اس عمر کے بچے جسمانی طور پر بڑے دکھائی دیتے ہیں مگر وہ ذہنی طور بالغ نہیں ہوتے ۔ اس وقت والدین اور اساتذہ کا کردار اور ذمہ داری اور بڑھ جاتی ہیں۔سمجھدار والدین اپنے بچوں کے لیے ہمیشہ بہترین تعلیمی ادارے کا انتخاب کرتے ہیں کیونکہ صرف اچھے تعلیمی ادارے ہی تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت بھی کرتے ہیں۔موجودہ حالات میں تعلیم کے ساتھ ساتھ کردار سازی اہم ترین کام ہے۔ہماری ترقی بچوں سے وابستہ ہے کیونکہ وہ ہمارامستقبل ہیں۔ میں بچوں کے عالمگیر دن کے حوالے سے یہ پیغام لازمی طور پر دوں گا کہ بچوں کی تعلیم اور کردار سازی سے قبل اساتذہ کو تربیت دی جائے تاکہ وہ زیادہ موئثر طور پر تعلیم و تربیت میں اپنا کردار ادا کریں۔
ایک سروے رپورٹ کے مطابق 60 فیصد بچے اس لئے تعلیم حاصل کرناچھوڑدیتے ہیںکہ سکول میں مار پیٹ اورڈانٹ ڈپٹ سے کام لیا جاتا ہے۔اساتذہ بچے کو نہ پڑھنے پر سزا دیتے ہیں۔اس سزا کا یہ مطلب ہے کہ اساتذہ کرام بچے کو پڑھانے میں ناکام ہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ بچوں میں ایسا شعور اْجاگر کیا جائے جس سے بچے میں خود بخودتعلیم حاصل کرنے کاشوق پیداہوایسے سکول جہاں بچوں کو پیار سے سمجھایا جاتا ہے وہاں وہ بڑے شوق سے پڑھنے جاتے ہیں۔سزا بچوں میں اصلاح پیدا نہیں کرتی بلکہ بچوں کو پڑھائی سے بیزار اورخود سر بنادیتی ہے۔بچپن سے ہی اگر بچوں کی حوصلہ افزائی کی جائے تو یقیناً ان کا مستقبل بھی روشن ہوگااوراگر بچپن سے ہی مار پیٹ ڈانٹ ڈپٹ کی جائے تو بچوں میں خود اعتمادی نہیں رہے گی بلکہ ان کی جسمانی اورذہنی نشوونمامیں بھی رکاوٹ پیداہوگی۔یہی وجہ ہے کہ زیادہ تر بچے مار کی وجہ سے نہیں پڑھنے جاتے۔
40 فیصد بچے ایسے ہیں کہ جن کے گھریلو حالات اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ وہ پڑھ لکھ سکیں حالانکہ ان میں ایسے بچے بھی موجود ہیں جو بڑی صلاحیتوں کے مالک ہیں اگرہر امیر آدمی صرف ایک بچے کوپڑھانے کی ذمہ داری اٹھا لے تو بڑی حد تک چائلڈ لیبرپرقابو پایا جا سکتا ہے۔بڑوں کی طرح بچوں کے بھی مسائل ہوتے ہیں۔اگران کے مسائل کا حل ڈھونڈ لیاجائے توہمارا پیاراوطن پاکستان بھی ترقی یافتہ ممالک میں شامل ہوسکتا ہے۔ معاشرے میں کچھ بچے کسی عارضے یا معذوری کا شکار ہوجاتے ہیں ۔یہ معذوری کسی بیماری کے نتیجے میں ہو سکتی ہے۔کچھ بچے ذہنی طور پر معذور ہو سکتے ہیں ان کی سننے،سمجھنے،بولنے کی معذوری ہو سکتی ہے۔ہمارے آئین میں معذور افراد کے لیے سہولیات موجود ہیں مگر ضرورت عمل درآمد کی ہے۔ہمارے ہاں تو معذوروں کے لیے کسی قسم کی سہولت کا تصور تک نہیں ہے لیکن ترقی یافتہ ممالک میں حکومت کی جانب سے معذور افراد کے بہترین انتظامات مہیا کیے جاتے ہیں۔ ہمارے ہاںمارکیٹوں،بینکوں اور دیگر شعبہ زندگی میں معذور افراد کو بڑے کرب اور تکلیف سے گزرنا پڑتا ہے۔ یہ حکومت کی ذمہ داری تو ہے ہی،ساتھ ہی ساتھ ہم سب کا فرض ہے کہ ان معذور افراد کو انسان سمجھیں اور جہاں تک ممکن ہو ان کے لیے آسانی کا باعث بنیں۔ ان معذور افراد میں بے شمار صلاحتیں موجود ہوتی ہیں۔قانون قدرت ہے کہ اللہ پاک کسی سے ایک خوبی سے محروم کرتا ہے تو کوئی اور صلاحیت سے نواز دیتا ہے۔ہم خواہ کسی بھی شعبہ زندگی سے وابستہ ہیں ہمیں اپنے بچوں کے لیے ایک بہترین عملی نمونہ بننا ہوگا تاکہ ہمارے بچوں کا مستقبل روشن اور مثالی ہو۔کالم کا اختتام ان منظوم الفاظ پر۔
گھر کی رونق، دل کے اْجالے جو کچھ بھی ہیں بچے ہیں ما ں کی ممتا، دل کی مسرت جو کچھ بھی ہیں، بچے ہیں باپ کی شفقت، دل کے ارماں جو کچھ بھی ہیں، بچے ہیں خوابِ جوانی،دل کی دھرکن جو کچھ بھی ہیں، بچے ہیں جاں سے پیارے، دل کی تمنا جو کچھ بھی ہیں، بچے ہیں روشن تارا، دل کا سہارا جو کچھ بھی ہیں، بچے ہیں جیون کے نت نئے رنگوں میں جو کچھ بھی ہیں، بچے ہیں آج کے بچے کل کی قومیں جو کچھ بھی ہیں، بچے ہیں