اب بھی ہر خواب ادھورا تو دعا لاحاصل اپنی اِس عمر کا حاصل بھی رہا لا حاصل جب کسی رنج ومسرت سے ہی رغبت نہ رہی تجھ سے ملنے کا ارادہ بھی گیا لاحاصل حاکمِ وقت تیرے عدل کے ایوانوں میں ہم نے جو کچھ بھی صفائی میں کہا لاحاصل اب بھی افکار زمانے میں ہیں زندہ اُن کے جِن کے ہونٹوں پہ رہے حرف و صدا لاحاصل روز اِک زخم نیا مجھ کو عطا کرتا ہے کب رہا میری وفائوں کا صلہ لا حاصل تیری تدبیر کے موسم ہی نہ بے برگ ہوئے اپنی تقدیر کا رونا بھی رہا لاحاصل کب بھلا رُوئے تمدن کو جِلا بخشے گا ہم نے جو کچھ بھی نصابوں میں لکھا لاحاصل