تحریر : عماد ظفر نواز شریف نے بالآخر خود ساختہ اور من گھڑت افواہوں کا گلا گھونٹتے ہوئے قومی اسمبلی میں اپنے خلاف پیش ہونے والے بل کو بھاری اکثریت سے مسترد کروا دیا. مسلم لیگ نون اور اس کے اتحادیوں نے بل کی مخالفت میں 163 جبکہ متحدہ اپوزیشن نے بل کے حق میں 98 ووٹ حاصل کئیے. وہ عناصر جو دراصل مسلم لیگ نون کے ٹوٹنے اور اس میں فارورڈ بلاک بننے کی باتیں کر رہے تھے ان کو اس نتیجے کے بعد شرمندگی اور خفت اٹھانا پڑی. اس بل کے مسترد ہونے سے ایک بات تو ثابت ہو گئی کہ نواز شریف کو مسلم لیگ نون سے مائنس کرنا ناممکن ہے. ماضی میں “فرشتوں” کی جانب سے بینظیر بھٹو اور نواز شریف کو مائنس کرنے کے ناکام فارمولوں کے باوجود یہ گھسا پٹا فارمولا پھر سے لاگو کرنے کی کوشش کرنا اس امر کا ثبعت ہے کہ ایسٹیبلشمنٹ نے بدلتے ہوئے حالات و واقعات کو سمجھنے میں غلطی کی ہے. ماضی کے برعکس اب وطن عزیز میں محلاتی سازشوں یا گھسے پٹے احتساب کے چورن کو بیچنا ناممکن ہو تا جا رہا ہے اور اس کی بڑی وجہ الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کے ابلاغ کی موجودگی اور عوام کے ایک اچھے خاصے حصے میں سیاسی شعور کی بلوغت قرار دی جا سکتی ہے.
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جن قوتوں نے عدلیہ کے کاندھے پر بندوق رکھ کر نواز شریف کا شکار کیا , کیا وہ آسانی سے پیچھے ہٹتے ہوئے نواز شریف کو ایسٹیبلیشمنٹ مخالف بیانیئے کو مزید مضبوط بناتے کا موقع دیتے ہوئے اگلے عام انتخابات منعقد ہونے دیں گی? کیونکہ نوازشریف نااہل ہو کر بھی اس وقت اتنی عوامی مقبولیت ضرور رکھتا ہے کہ وہ اپنی جماعت کو اگلے عام انتخابات میں بھی سادہ اکثریت باآسانی دلوا سکتا ہے. یعنی حالات و واقعات کا جائزہ لیا جائے تو اگلے عام انتخابات کا انعقاد کم سے کم نواز شریف کی جماعت کےحصے بخرے کئیے بنا ناممکن دکھائ ہے. لیکن قباحت یہ ہے ماضی کے برعکس موجودہ مسلم لیگ نون میں چوہدی برادران اور شیخ رشید جیسے موقع پرست اور ایسٹیبلیشمنٹ کی جھولی میں بیٹھنے والے سیاستدان نہ ہونے کے برابر ہیں. دراصل ٹی وی سٹوڈیو میں بیٹھ کر افواہیں پھیلاتے پیراشوٹ اینیکرز اور خاکی گملوں سے نکلے دانشور پنجاب کی انتخابی سیاست کے حقائق سے نابلد ہیں. چوہدری برادران کا سیاسی انجام اکثر و بیشتر وفاداریاں تبدیل کرنے والے سیاستدانوں کیلئے نشان عبرت ثابت ہوا ہے اور پنجاب کے انتخابی سیاست کے پیشہ ور کھلاڑی جانتے ہیں کہ نواز شریف سے انتخابات کے ذریعے پنجاب چھیننا ناممکن ہے. یعنی جب تک کہ انتخابات کو موخر کر کے کوئ ٹیکنو کریٹ حکومت لانے کا انتہائ اقدام نہیں اٹھایا جاتا اس وقت تک مسلم لیگ نون میں سے کسی بہت بڑے حصے کا الگ ہو کر ایک نئی جماعت بنانے یا کسی دوسری جماعت میں ضم ہونے کا امکان ایک دیوانے کے خواب سے بڑھ کر اور کچھ بھی نہیں ہے.
دوسری جانب ٹیکنو کریٹ سیٹ اپ لانا بھی ایسی فضا میں آسان دکھائ نہیں دیتا جس میں پنجاب سے بھی ایسٹیبلیشمنٹ کے خلاف آوازیں اٹھنے لگ جائیں اور نواز شریف پنجاب کے ساتھ ساتھ بلوچستان کارڈ بھی کھیلنے کا اشارہ دے دے. ایبٹ آباد کے جلسے میں محمود خان اچکزئ کی موجودگی اور پھر نواز شریف کا بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں 2 دسمبر کو جلسے کا اعلان اس بات کا اشارہ ہے کہ نواز شریف بلوچ کارڈ استعمال کر سکتا ہے. راقم کی دانست میں نوازشریف کے پاس سب سے زیادہ خطرناک کارڈ پنجاب نہیں بلکہ بلوچستان کا ہے. ایسٹیبلیشمنٹ کی نسبت نواز شریف بلوچ ناراض راہنماوں کو زیادہ قابل قبول ہے .محمود اچکزئ اور فضل الرحمان کی بدولت بلوچستان کی پشتون بیلٹ پر نواز شریف کا ااثرو رسوخ مضبوط ہے. ڈاکٹر عبدالمالک کے ساتھ اتحاد اور ناراض بلوچ راہنماوں کے ساتھ ایک قابل قبول سیاسی پوزیشن بلوچستان میں بھی پنجاب کی مانند کسی غیر آئینی اقدام کی صورت میں ایک سیاسی اینٹی ایسٹیبلیشمنٹ تحریک کو جنم دے سکتی ہے .پہلے سے ہی بلوچستان میں درپیش علحدگی پسندوں کی بغاوت اور ان کی ریاستی طاقت کے زریعے سرکوبی نے بلوچستان کو ایک آگ میں دھکیل رکھا ہے اور اگر کسی غیر آئینی اقدام کی صورت میں بلوچستان کی سیاسی قوتیں بھی مزاحمت کی جانب بڑھیں تو شاید ایسٹیبلیشمنٹ کیلئیے بلوچستان کی صورتحال پر قابو پانا ناممکن ہو جائے گا. یہ کارڈ خود نواز شریف کو بھی سوچ سمجھ کر کھیلنا چائیے کیونکہ پھر اس سے پیدا ہونے والی صورتحال شاید پھر ان کے بھی قابو سے باہر ہو جائے.
ایسٹیبلیشمنٹ کے پاس اس وقت آخری حربہ اور ہتھیار روایتی ور آزمودہ مذہبی کارڈ بچا ہے اور اس کارڈ کو استعمال کرنے کا عمل شروع ہو چکا ہے.تحریک لبیک کے زریعے اسلام آباد دھرنا اور اس کے نتیجے میں اختتام لال مسجد جیسے سانحے کی صورت میں توقع کرنا اور مزہبی رجحان والے ووٹر کو نواز شریف اور اس کی جماعت کو دین اور ناموس رسالت کیلئے خطرہ قرار دینا اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے. . تحریک طالبان کے گاڈ فادر اور ایسٹیبلیشمنٹ کے چہیتے مولوی سمیع الحق اور عمران خان کا انتخابی اتحاد اس ضمن کی ایک اور کڑی دکھائ دیتی ہے. یعنی ایسٹیبلیشمنٹ اپنے ترکش کے تمام تیر چلانے کے بعد اب بسمل کے گھائل ہو کر تڑپ تڑپ کر مرنے کا نظارا دیکھنا چاہتی ہے اور ساتھ یہ توقع بھی کرتی ہے کہ مرنے والا نہ تو جان بچانے کی کوشش کرے اور نہ ہی آہ و بکا مچائے بس چپ چاپ ایسٹیبلیشمنٹ کی چھری تلے اپنی گردن رکھ کر حلال ہو جائے. اب صورتحال کچھ یوں ہے کہ نواز شریف کا پاکستان میں موجود رہنا نہ صرف ایسٹیبلیشمنٹ مخالف بیانئیے کی مزید تقویت کا باعث بنے گا بلکہ اس لڑائ میں شاید ایسٹیبلیشمنٹ کی وقتی پسپائ کا باعث بھی بنے گا.
نااہل نواز شریف وزارت عظمی کی کرسی پر فائز نواز شریف سے زیادہ خطرناک ثابت ہوتا دکھائ دے رہا ہے. وزارت عظمی کی کرسی پر موجود نواز شریف سمجھوتوؑں کی بیساکھی کے سہارے چلنے پر مجبور تھا جبکہ نااہلی کے بعد کا نواز شریف مکمل طور پر اینٹی ایسٹیبلیشمنٹ بیانیئے کا علم تھامے ملکی ایسٹیبلیشمنٹ کو مشکل وقت دیتا دکھائ دیتا ہے. سیاسی تاریخ پر نگاہ رکھنے والے جانتے ہیں کہ نواز شریف اقتدار کی سیاست سے زیادہ اچھی سیاست اپوزیشن کی کرتا ہے اور اس کو نااہل کر کے اپوزیشن کی سیاست پر مجبور کرنے والے ایسٹیبلیشمنٹ کے ایک حصے نے خود نواز شریف کو ایک طرح سے فرنٹ فٹ پر کھییلنے کی بنیاد فراہم کر دی ہے. اس طاقت کی جنگ میں نواز شریف جیتے یا ہارے لیکن اس نے پنجاب جیسے روایتی ایسٹیبلیشمنٹ کے حامی صوبے میں اینٹی ایسٹیبلیشمنٹ بیانیے کی بنیاد رکھ کر اپنی جماعت اور مریم نواز کو موجودہ عالمی اور ملکی سیاست کے تناظر میں آنے والے دنوں میں ایک مستحکم سیاسی پوزیشن عطا کر دی ہے. نواز شریف کو ناہل کروانا شاید ایسٹیبلیشمنٹ کی سب سے بڑی بے وقوفی تھی اور اس حقیقت کا ادراک اسے آنے والے وقتوں میں ہو جائے گا.