تحریر : میر افسر امان،کالمسٹ جماعت اسلامی، تحریک انصاف اور عوامی مسلم لیگ نے کرپشن کے خلاف سپریم کورٹ آف پاکستان میں جہاں نواز شریف کے خلاف کرپشن کی درخواست دی تھی اور اِس کے نتیجہ میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے نواز شریف کو کسی بھی عوامی عہدے کے لیے تاحیات نا اہل قرار دیا تھا۔ وہاں ساتھ ہی ساتھ جماعت اسلامی کے امیر سینیٹر سراج الحق ے باقی آف شور کمپنیاں رکھنے والے ٤٣٦پاکستان شہریوں کے خلاف بھی درخواست دی تھی کہ نواز شریف کی طرح ان کے خلاف بھی کاروائی کی جائے۔ اور مجرم ثابت ہونے پر ان کو بھی قرار واقعی سزا دی جائے۔ بلکہ ان سے پاکستانی عوام کا کرپشن کے ذریعے غبن کیا کیا پیسہ وصول کر کے واپس پاکستان کے خزانے میں جمع کروایا جائے۔سپریم کورٹ آف پاکستان نے اس درخواست کو منظور کرتے ہوئے اس کی کاروائی کے لیے مورخہ ٢٣ نومبر ٢٠١٧ء کی تاریخ طے کی تھی۔ مقدمہ سننے کے لیے ہم بھی ایک صحافی ہونے کے ناتے سپریم کورٹ آف پاکستان پہنچے۔ کورٹ کے حکم کے مطابق اندر جانے کی تو اجازت نہیں دی گئی۔صرف پندرہ افراد کو اندر جانے کے لیے کارڈ دیے گئے۔
ہم باہر ہی کھڑے رہے کہ مقدمے کی کاراوئی کے بعد سراج لحق کی میڈیا سے گفتگو سے ہی پتہ چل جائے گا۔ سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ کے سامنے وکیل طارق اسدنے دلائل دیے کہ ٹیکس بچانے کے لیے آف شور کمپنیاں بنائی جاتی ہیں۔کرپشن سے پیسہ لوٹ کر آف شور کمپنیاں بنانے والوں کے خلاف کاروائی کی جائے۔صرف چند افراد کے خلاف کاروائی سے مسئلہ کا حل نہیں ہو گا۔کرپشن پاکستان کے ہر محکمے کی جڑوں میں بیٹھ چکی ہے۔کرپشن کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ کرنا ہو گا۔ وکیل کے دلائل سننے کے بعد بینچ کے سربراہ اپنے ریمارکس دیے۔سپریم کورٹ نے اس معاملے پر وفاق اور نیپ کو نوٹسز بھی جاری کر دیے اور آیندہ کاروائی غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دی۔ سپریم کورٹ کے معزز جج جناب اعجاز افضل صاحب صاحب نے کہا کہ آمدن سے زائداثاثوںکی تحقیقات کی ذمہ داری نیپ کی ہے۔ آپ کی درخواست پر کاروائی کا حکم کسے دیا جائے۔درخواست کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ آمدن سے زائد اثاثوں کا تعین نیپ نے کرنا ہے۔درخواست گزار یہ چاہتے ہیں کی تمام ٤٣٦ پاکستانی شہریوں کے خلاف بلا تفریق کاروائی کی جائے۔سراج ا لحق نے عدالت اعظیٰ کے باہر پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہ جب تک حکمرانوں پر کرپشن کا داغ لگا رہے گا۔ بیرون دنیا پاکستان کا وقاردائو پر لگا رہے گا۔ہماری لڑائی کسی فرد کے خلاف نہیں۔کرپشن کے خلاف ہے۔ کرپٹ مافیا کا تعاقب جاری رکھیں گے۔
قوم کو ایسا نظام دیں گے کہ اس بیماری کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہو جائے۔پاناما کیس میں ویر اعظم کو ہمیشہ کے نا اہل قرار دینا بہت بڑی بات ہے۔پاناما میں شامل تمام لوگوں کا احتساب ہونا چاہیے۔احتساب کے بغیر ملک ٹھیک نہیں ہو سکتا۔قوم کا مطالبہ ہے کہ سب کا احتساب ہونا چاہیے۔عوام، عدلیہ اور پارلیمنٹ مل کر احتساب کر سکتی ہیں۔جماعت اسلامی ہمیشہ صحیح ٹریک پر چلتی رہی ہے۔ہمارا اختیار کردہ ٹریک ہی ملک کی خوش حالی کا ضامن ہے۔لوگ یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کی جماعت اسلامی کی لڑائی صرف ایک شخص کے خلاف ہے یہ غلط ہے۔ہم سب کا احتساب چاہتے ہیں۔جو لوگ سمجھتے ہیں کہ پاناما سے کچھ بھی نہیں نکلے گا وہ انتظار کریں۔ عدلیہ کبھی بھی قوم کو مایوس نہیں کرے گی۔اور کرپٹ لوگوں کا محاسبہ ضرورہو گا۔ جماعت اسلامی پاکستان کوکرپٹ حکمرانوں سے پاک کر نے کے بغیر چین سے نہیں بیٹھے گی۔
صاحبو! پاکستان میں جماعت اسلامی نے بہت پہلے کرپشن کے خلاف مہم جاری کی تھی۔ اس میں پورے پاکستان میں کرپشن کے خلاف عوامی ریلیاں نکالی گئیں۔ ملک میں بڑے بڑے جلسوں میں عوام کو کرپشن کے خلاف آگاہ کیا گیا۔پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں کرپشن کے خلاف سیمینار منعقد کر کے اس میںدانشوروں اور معاشیات کے ماہرین کے تجزیے کروائے گئے۔ کہ کس طرح حکمران ملک کی دولت لوٹ رہے۔آخر میں پورے پاکستان میں کرپشن کی آگاہی کے لیے کراچی تک ٹرین مارچ کی ۔ کرپشن کی وجہ سے ملک میں بے روزگاری ہے۔ لوگوں کو ملازمتیں نہیں مل رہی۔ ملک ترقی نہیں کر رہا۔ اگر ملک کی لوٹی ہوئی دولت کو واپس پاکستان لایا جائے توپاکستان کے تمام بیرونی قرضے ختم ہو سکتے ہیں۔پاکستان کو اللہ نے ہر قسم کی نعمتوں سے نواز ہے۔پاکستان کو اللہ نے سمندر، دریا، پہاڑ، ریگستان، صحر ا اور زرخیز زمین عطا کی ہے۔پاکستان کے پہاڑوں کی اونچی چوٹیوں میں سارا سال برف جمی رہتی ہے۔ گرمی کے موسم میں یہ برف پگل کر دریاوں کے ذریعے پاکستان کی زمینوں کو سر سبز کرتی ہے۔ اس کی زمین میں نایاب اور قیمتی معدنیات موجود ہیں۔ جس میں سونا، تانبا اور کوئلہ موجود ہے۔ محکوم ملکوں میں ہم سے بعد میں آزاد ہونے والے ملکوں نے ترقی کے ریکارڈ قائم کر دیے ہیں۔مگر پاکستان اب بھی غیر ترقی یافتہ ملک ہے۔ اس میں ایماندار لیڈر شپ کی کمی ہے۔ قائد اعظم اور لیاقت علی خان کے بعدپاکستان کی حکمران جماعت مسلم لیگ کے لیڈروں نے ملک کو لوٹا۔ ان حکمرانوں نے ملک کا پیسہ باہر ملکوں کے بنکوں میں رکھا ہوا ہے۔ ہمیں بے نظیر بھٹو کا اخباری بیان یاد آ رہا ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ پاکستان میں پیسہ رکھنا محفوظ نہیں ہوتا اس لیے لوگ باہر پیسہ رکھتے ہیں۔
حکمرانوں کی ایسی سوچ ہو تو پھر باہر سے انوسٹرز پیسہ کیوں لائیں گے۔ ہمارے حکمرانوں کے کاروبار بھی باہر ہیں۔ اس کے بچے باہر ملکوں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ ان کی پوری فیملیوں کا علاج بھی باہر ملکوں میں ہوتا ہے۔ لوگوں کو دکھاوے کے لیے موٹر ویز بناتے ہیں۔ گرین ٹرین اور میٹرو بسیں تو چلاتے ہیں مگر ملک کی ٧٠ فی صد آبادی جو دہاتوں میں رہتی ہے ان کے لیے ان کے بنائے ہوئے یہ پرجیکٹ کس کام کے ہیں۔ چھوٹے شہروں کے لوگ بھی ان پروجیکٹ سے فاہدہ نہیں اُٹھا سکتے۔ ملک میں حکمرانوں کی کرپشن کی وجہ سے دہشت گردی پھیل رہی ہے۔کیا ملک میںہے کوئی دینی یا سیاسی جماعت جس کے اندر کرپٹ لوگ نہ ہوں۔ہاں ایک جماعت اسلامی ہے جس میں کرپشن نہیں۔
اس کے امیر سراج الحق کے لیے ہی سپریم کورٹ کے ریماکس بھی موجود ہیں کہ اگر ٦٢۔٦٣ پرممبران پالیمنٹ پرپرکھا جائے تو ایک سراج الحق ہی بچتے ہیں۔ اس ہی جماعت اسلامی کے امیر اور سینیٹر سرج الحق نے سپریم کورٹ میں آف شور کمپنیاں رکھنے والوں ٤٣٦ لوگوں کے خلاف مقدمہ درج کیا ہے۔ عوام عدلیہ سے اُمیدیہ رکھتی ہے کہ وہ ان کرپٹ لوگوں کو انصاف کے کہٹرے میں کھڑا کرے گی اور عوام کو انصاف مہیا کرے گی۔ ان سے غریب عوام کی خون پسنے کی کمائی سے لوٹی ہوئی کرپشن کی دولت واپس پاکستان کے خزانے میں جمع کروانے کے آڈر پاس کرے گی۔اس وقت عوام کا سہارا صرف اور صرف سپریم کورٹ ہی ہے۔