تحریر : واٹسن سلیم گل، ایمسٹرڈیم چند دن قبل کی بات ہے میں اور بھائ گیسپر ڈینئل بی ٹی ایل مسیحی ٹیلویژن پر ایک پروگرام کی میزبانی کر رہے تھے۔ گیسپر بھائ نے مجھے کہا کہ آج کے پروگرام میں ٹیلی فون پر ایک مہمان ہیں جو پاکستانی مسیحی ہیں شائد آپ ان کو جانتے ہوں۔ میں نے جیسے ہیں ڈاکٹر صابر مائیکل کا نام سُنا تو کہا کہ میں ڈاکٹر صاحب کا بہت بڑا مداع ہوں۔ ڈاکٹر صابر نہ صرف مسیحی کمیونٹی بلکہ پاکستان کا فخر ہیں۔ میں کبھی ڈاکٹر صابر کے ساتھ ملا تو نہی تھا مگر پاکستانی میڈیا پر ان کے حوالے سے بہت کچھ سُنا تھا۔
پاکستان کے نیشنل ٹی وی چینلز پر ان کے انٹرویوز بھی دیکھے تھے۔ میں نے اور گیسپر بھائ نے اپنا مزکورہ پروگرام شروع کیا مگر بد قسمتی سے تکنیکی خرابی کی وجہ سے ہمارا رابطہ ڈاکٹر صاحب سے منقطہ ہو گیا اور پھر ان سے بات نہ ہو سکی مگر میں نے اسی دن یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ ڈاکٹر صابر کی شخصیت کے بارے میں ضرور لکھونگا تا کہ جو داکٹر صاحب کو نہی بھی جانتے وہ جان لیں ۔ ابھی یہ سوچ ہی رہا کہ ایک روز ڈاکٹر صابر کا فون آیا وہ میرے کسی کالم کی تعریف کر رہے تھے اور میرے کالم کے موضع کےحوالے سے بڑی جامعہ گفتگو کر رہے تھے۔
میرے لئے یہ حوصلہ افزاء بات تھی کہ انہوں نے میرے کالم کے حوالے سے بات کی ۔ ڈاکٹر صابر مائیکل جب پیدا ہوئے تو مکمل طور پر صحتمند نہی تھے۔ پیدائیش کے وقت ان کی بینائ بہت کم تھی جو وقت کے ساتھ بلکل ختم ہوگئ۔ اور ڈاکٹر صابر قوت بصارت سے محروم ہو گئے۔ گو کہ یہ بات ان کے لئے اور ان کے خاندان کے لئے کسی بہت بڑے حادثے سے کم نہی تھی مگر ڈاکٹر صاحب نے کم عمری سے ہی اپنی اس کمزوری پر قابو پالیا جب انہوں نے اپنی ہمت اور لگن سے اپنی تعلیم جاری رکھی۔ عام زندگی میں ان کو بہت سے مسائیل کا سامنا تھا۔ ہمارا معاشرہ ایک ایسے طالب علم کو قبول کرنے کے کے لئے تیار نہی تھا جو قوت بینائ سے محروم ہو۔ ڈاکٹر صاحب نے ہار نہی مانی اور پھر یہ کمزوری ہی ڈاکٹر صاحب کے لئے طاقت بن گی۔ انہوں نے اپنی تعلیم کونوینٹ ہائ اسکول اوکاڑہ سے شروع کی اور اپنی محنت، لگن اور ہمت سے اپنی پڑھائ کا یہ سلسلہ جاری رکھا اور پڑھ لکھ کر معاشرے میں اپنا ایک مقام بنایا انہوں نے نہ صرف اپنی تعلیم مکمل کی بلکہ انہوں نے سوشیالوجی میں پی ایچ ڈی کی ہے۔ قوت بصارت سے محروم شخص کا تعلیم کی اس حد تک جانا واقئ قابل تحسین ہے۔ ڈاکٹر صابر کا تعلق درس و تدریس سے ہے اور وہ کراچی کی تین مختلف یونیورسٹیز میں پڑھاتے بھی ہیں۔
پاکستان ائیرفورس کی یونیورسٹی انسٹیٹوٹ آف اکنامکس اینڈ ٹیکنالوجی، انڈس یونیورسٹی اور بحریہ یونیورسٹی آف کراچی میں استاد کی حثیت سے اپنے فرائیض انجام دیتے ہیں۔ اور آج کل کراچی یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کی حثیت سے فرائیض انجام دے رہے ہیں۔ اس کے علاوہ ڈاکٹر صاحب میوزک کا نہ صرف شوق رکھتے ہیں بلکہ بہت سے ساز بھی بجاتے ہیں اور چرچ میں مزہبی گیت بھی گاتے ہیں۔ اس کے علاوہ ڈاکٹر صاحب انسانیت کی خدمت بغیر کسی رنگ، مزہب اور قومیت کی تفریق کے کرتے ہیں اس سلسلے میں انہوں نے دنیا کے تیس سے پینتیس ممالک کا دورہ بھی کیا ہے۔ اور حال ہی میں وہ اقوام متحدہ میں اقلیتوں کے حوالے سے ہونے والی بین الاقوامی وفود کی میٹین میں بھی شریک ہوئے تھے۔ جو نیویارک میں اقوام متحدہ کے ہیڈ آفس میں منعقد ہوئ تھی۔ ڈاکٹر صاحب بین المزاہب کے درمیان مضبوط رشتوں پر یقین رکھتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اگر اس دنیا کو امن کا گہوارہ بنانا ہے تو ہمیں ایک دوسرے کا احترام کرنا ہوگا۔
ڈاکٹر صاحب سے لوگ اکثر یہ سوال کرتے ہیں کہ اپنی فیملی کے ساتھ یورپ یا امریکہ میں منتقل کیوں نہی ہو جاتے تو ڈاکٹر صاحب فرماتے ہیں کہ مجھے اپنے ملک میں رہہ کر اپنے ان لوگوں کی خدمت کرنی ہے جن کو میری ضرورت ہے یا جو میرے جیسے ہیں اور کسی جسمانی کمزوری کا شکار ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نیلسن منڈیلا کو اور محترمہ بے نظیر بھٹو کو اس صدی کا سب سے بڑا لیڈر مانتے ہیں اور ان کے مداح ہیں۔ نیلسن منڈیلا کی کی ہمت اور صبر کے حوالے سے ڈاکٹر صابر فرماتے ہیں کہ جیل میں ان کی ہمت اور صبر نے نیلسن منڈیلا کو اتنا بڑا لیڈر بنا دیا کہ بڑے بڑے لیڈر ان کے سامنے بونے لگتے ہیں۔
محترمہ بے نظیر بھٹو کی فکر اور فسلفے کو مانتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اگر آج محترمہ زندہ ہوتیں تو پاکستان بہت آگے ہوتا۔ ڈاکٹر صاحب کی زندگی کا ایک خوبصورت واقعہ جو ڈاکٹر صاحب نے اپنے ایک ٹی وی انٹرویو میں ایک خاتون میزبان کو بتایا کہ سن 2000 میں ویٹیکن میں پوپ جان پال کے ساتھ ان کی ایک ملاقات ان کی ایک یادگار ملاقار بن گئ جب پوپ جان پال نے ان کے گال پر شفقت سے ہاتھ رکھا اور ان کو تاکید کی کے آپ کے ملک میں بہت سے لوگوں کو آپ کی بہت ضرورت ہے ان کو چھوڑنا نہی۔ اپنے ملک میں رہ کر ان کی خدمت کرنا۔ ڈاکٹر صاحب مکمل طور پر پاکستانی ہیں اور اپنے وطن کو پیار کرتے ہیں۔ مگر اپنے لوگوں کے حقوق کے لئے آواز بھی اٹھاتے ہیں۔ ہاں اپنے نظام سے ناراض ہیں کہ اگر ان کو کوئ سرکاری نوکری مل جاتی تو ان کے بچوں کا مستقبل محفوظ ہو جاتا۔ حکومتی سطع پر ان کی حوصلہ افزائ نہی ہوئ اگر ہوتی تو یہ ان لوگوں کے لئے بھی حوصلہ افزاء ہوتی جو ڈاکٹر صاحب کے طرح جسمانی طور پر مکمل نہی ہیں۔