تحریر : اسلم انجم قریشی جن قوموں نے وقت کی پابندی اور اس کی قدرکی وہ ترقی کے منازل طے کر تی رہی ہیں اور آج بھی وہ ان اصولوں پر کاربند رہتے ہوئے اپنی ترقی کی منزل پر پہنچنے کے لئے گامزن ہیں یاد رہے کہ وقت ایک انمول خزانہ ہے یہ بات قابل غور ہے کہ کائنات کا پورا نظام ہمیں وقت کی پابندی کا درس دیتا ہے دن رات اپنے وقت مقررہ پرآتے اور جاتے ہیں موسم اپنے مقررہ وقت پر بدلتے ہیں چاند اپنے وقت پر گھٹتا اور بڑھتا ہے اور سور ج اپنے مُعین وقت پر طلوع اور غروب ہوتا ہے یہ قدرتی فطرات ہیں جس میں کھبی کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوسکتی۔ وقت کی پابندی زندگی کے ہر شعبے میں ضروری ہے دنیا کا کوئی شخص خواہ وہ کسی بھی شعبے سے تعلق رکھتا ہو جب تک وقت کا پابند نہیں ہوگا کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوسکے گا۔ لیکن یہ لوگ جو قبل از وقت اور بروقت کی بحث میں مبتلا ہیں جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ اب تک اپنے وقت کا تعین ہی نہیں کرسکے صد افسوس۔۔۔ خیر یہ لوگ ہی توہیں موقع ومفاد پرست جن کا مقصد صرف اورصرف اقتدار حاصل کرنا ہے انہیں اس بات سے قطعی کوئی غرض نہیں کہ قوم کن حالات سے گزر رہی ہے اور ان پر کیا بیت رہی ہے بس اور بس کسی بھی صورت ا نتخابات میںمنتخب ہونا ہے۔
قوم بھلے بھوک وپیاس سے مرے چاہیے ان پر قرض پر قرض چڑھتا ہو اور قرض کے بوجھ تلے مزیددبتے دبتے چلے جائیں انہیں کوئی پرواہ نہیں سوچنے کی اور حیران کن بات یہ ہے کہ جس طرح سے یہ لوگ انتخابات کے سلسلے میں مختلف قسم کی قیاس آرائیاں کررہے ہیں جن میں ایک حلقہ قبل از وقت اور دوسرا حلقہ بروقت جبکہ جو تیسرا حلقہ ہے و ہ ہمیشہ و آئندہ انتخابی عمل میں جو کہ بنیادی اہمیت کا حامل ہے اور وہ ہے ملک کی عوام جسے آج تک انہیں ووٹ کی اہمیت بتائی ہی نہیں گئی کاش گرچہ عوام کو ماضی میں اپنے مقدس اور قیمتی ووٹ کی اہمیت کا اندازہ ہوجاتا تو شاید یہ پرفریبی مفاد پرست کھبی بھی کامیاب نہیں ہوسکتے تھے دراصل ان عناصروں نے عوام کو انتخابی مواقع پر ایک کاغذ کے ٹکڑے کی حیشیت سے استعمال کرکے کوڑے دان میں پھینکتے چلے گئے اس طرح ان موقع و مفاد پرستوں نے عوام کی حقیقی طاقت کو کچرے کے ڈھیر میں تبدیل کردیا اورعوام کے ووٹ کی طاقت سے یہ ممبران اسمبلی بن کر اور اعلیٰ منصب پر پہنچتے ہی یہ عوام کو مکمل طور پر نظرانداز کر دیتے ہیں جس کا ثبوت عوام کی حالات زار سے لگایا جاسکتا ہے عوام کے مقدس ووٹ کی پامالی جس طریقے سے کی جاتی ہے ان کا وہ عمل بھی آپ کے سامنے ہے کیا پھر بھی ان مکروہ چہروں کو اپنا نمائندہ بنائیں گے ۔
موجودہ صورتحال سے ایک تجزیہ کیا گیا ہے کہ عوام کو اس بحث سے قطعی دلچسپی نہیں وہ اس لئے کہ یہ عوامی حلقہ وقت کی پابندی اور اس کی قدر کرنے کے اصولوں پر کاربندہوتے ہوئے نظر آرہا ہے اب ا س حلقے کی بنیادی خواہش مکمل توجہ اور ان کی نگھائیں صرف اسطرف لگی ہوئی ہیںجو اس وقت ملک میں احتساب کا عمل چل رہا ہے وہ سب کے ساتھ آئین و قانون کے مطابق ہو کیونکہ قانون سے بالا تر کوئی بھی نہیں اور عوام نے یہ عہد کرلیا ہے کہ وہ اس صاف شفاف احتسابی عمل سے نتیجہ اخذ کرکے آئندہ کا لائحہ عمل بنانے کے لئے اس پر غورو فکر کرے گی جب تک عوام کو قبل از وقت اور بروقت انتخابات سے کوئی سروکار نہیں اور عوام کے نزدیک یہ بحث بے معنی ہے فی الوقت عوام نے اپنے قیمتی ووٹ کی اہمیت کو سمجھنے کی کوشش تیز کردی ہے اور آئندہ ملک میں منعقد ہونے والے عام انتخابات میںمستقل بنیادوں پر اپنی بھرپور قوت کا مظاہرہ کرتے ہوئے با صلاحیت باکردار اور قومی خدمت کے جذبے سے سرشار مخلصانہ بے لوث خدمت کی سوچ رکھنے والوں کا چنائوکریں گے اس سے قبل انتخابی اصلاحات کی طرف توجہ دلائی جانے کے سلسلے میں ایک مہم شروع کرنے کاپروگرام ترتیب دیا جارہا ہے عوام کا انتخابی اصلاحات کے لئے یہ کہنا ہے کہ سب سے پہلے موجودہ اراکین اسمبلی کے کردار پر روشنی ڈالی جارہی ہے کہ اراکین اسمبلی نے اپنے حلقے کی عوام سے جو وعدے کئے تھے ان پر وہ کہاں تک پورے اُترے اور انہوں نے پارلیمنٹ میں عوام کی ترجمانی کے لئے کس حد تک آواز اُٹھائی عوام نے اسپیکر قومی صوبائی اسمبلی سینٹ سے مطالبہ کیا کہ خود سمیت ان اراکین اسمبلی کی پارلیمنٹ میں حاضری کے اعداد شمار بتائیں جائیں اور دوسری جانب عوام نے ایک تجویز پیش کی ہے کہ قومی صوبائی و سینٹ ایوان پارلیمنٹ میں ماہر نفسیات کے ڈاکڑوں پر مشتمل ایک بورڈ تشکیل دیا جائے جو اراکین اسمبلی کے ذہنی توازن پر اپنے خیالات کا اظہار کرسکیں۔
مزید بورڈ کا مقصد ایوان میں اراکین اسمبلی کی حرکات وسکنات کو سمجھنا ہے کیونکہ پارلیمنٹ ایک ایسا ادارہ ہے جو عوام کی اصل قیمتی ووٹ کی طاقت سے وجود میں آتا ہے اور ایوان قانون و آئین کا ایک ذریعہ ہے لیکن ایوان میں عوام کے قیمتی ووٹوں کے تقدس کی پامالی کے جیسے واقعات سامنے آتے ہیں جہاں بنیادی طور پر عوام کے حقوق کی ترجمانی نہیں کی جاتی بلکہ اپنے ذاتی مفاد پر مبنی انداز دیکھنے اور سننے کو ملتے ہیں اور حد تویہ ہے پارلیمنٹ میں ایسی گفتگو سامنے آتی ہے جس سے ایوان مچھلی بازار کا منظر پیش کرتا ہے اس طرح ان اراکین اسمبلی کے ایوان میں جو کردار سامنے آتے ہیں اس سے عوام کی تذلیل ہوتی ہے اس کے علاوہ موجودہ اور آئندہ منتخب ہونے والے ارکان کو دی جانے والی مراعات میں ایون اجلاس کے دوران آ نے و جانے اور علاج ومعالج کے ساتھ اس طرح کی سہولت دی جائیں کہ انہیں کوئی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے کہ علاوہ ان کی تمام مراعات ختم کی جائیں اور ان ارکان اسمبلی کو ملنے والے فنڈ یونین کونسل کو دیے جائیں صرف ان ارکان کو اپنے اپنے حلقے میں جاری ترقیاتی کاموں کی نگرانی کی ذمہ داری سونپی جائے مزید کہ ان ارکان اسمبلی کے اثاثے ذات کی بھی چھان بین کروائے جائے تاکہ پتا چل سکے کہ یہ کل کیا تھے اور آج کیا ہیں حقیقت واضح ہوجائے گی عوام کی اس تجویز کا مقصد عوام کے مقدس قیمتی ووٹوںکی پاسداری اور اس کی قوت کو برقرار رکھنا ہے عموماَ ایسا ہوتا چلا آرہا ہے کہ عوام انہیں منتخب کرتی ہے بعد میں عوام کی کوئی قدرو قیمت نہیںرہتی عوام کے مسائل جوں کے توں رہتے ہیں جس سے عوام کا شدید بے چینی میں مبتلا ہونا اور عوام کے اندر ان اراکین اسمبلی کے متعلق تاثرات اچھے نہیں ہوتے اس کے باوجود عوام یہ چاہتی ہے اور اس کی نظر میںکوئی بھی نمائندہ قابل عزت و محترم ہے اور عوام ہرگز نہیں چاہتی کہ یہ اراکین اسمبلی ذلت و رسوائی سے دوچار ہوں لیکن عوام ملک و قوم کے خلاف کوئی بھی غلط اقدام کو برداشت نہیں کرے گی اس غرض سے عوام اس سوچ پر عمل پیراں ہے کہ ان اراکین اسمبلی کو یہ احساس ہو کہ جس طاقت کے ذریعے ہم یہاں پہنچے ہیں انہیں کسی بھی صورت نظرانداز نہیں کر سکتے۔
جو ہر کام کرتا رہے وقت پر ۔ملے اس کو آرام شام و سحر آخر میں امجد اسلام امجد کا ایک شعر دل کے دریا کو کسی روز اُتر جانا ہے۔ اتنا بے سمت نہ چل لوٹ کے گھر جانا ہے