تحریر : منذر حبیب اسلامی فوجی اتحاد میں شامل اکتالیس ممالک کے وزرائے دفاع کا اہم اجلاس سعودی دارالحکومت الریاض میں ہوا ہے جس میں دہشت گردی کے خطرات سے بچائواور اس سے نمٹنے کیلئے اتحادویکجہتی کے پختہ عزم کا اظہار کیا گیااور کہا گیا ہے کہ اس کیلئے جامع حکمت عملی ،بہترین منصوبہ بندی اور مشترکہ جدوجہد کا راستہ اپنایا جائیگا۔اسی طرح فرقہ وارانہ جھگڑوں کی آگ بھڑکانے والوں ، انارکی پھیلانے ، فتنے اور ہنگامے برپا کرنے والوں کوبھی لگام لگانے کی کوشش کی جائے گی۔ دہشت گردی کے خلاف میڈیا کو بھرپور طریقے سے استعمال کیا جائیگا۔ دہشتگردی کی فنڈنگ کو روکنے کی کوشش کی جائیگی۔باہم معلومات اور رپورٹوں کا تبادلہ ہوگااور سلامتی امورکے سلسلے میں تعاون کو فروغ دیا جائیگا۔اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ مسلمان ملکوں میں دہشت گردی کی فنڈنگ کا دائرہ کار تنگ کرنے کیلئے موثر قوانین و ضوابط پر توجہ مبذول کی جائیگی۔ وزرائے دفاع نے اس عزم کا بھی اظہار کیا کہ دہشتگردوں کے خلاف عسکری کارروائی ہوگی۔ اتحادی ممالک دہشتگردتنظیموں کوکمزور کرنے ، انکی بیخ کنی اورانکے تانے بانے توڑنے کیلئے مطلوب فوجی طاقت فراہم کرنے کا اہتمام کریں گے۔
اسلامی فوجی اتحاد میں شامل وزرائے دفاع کے اجلاس سے جنرل (ر) راحیل شریف نے بھی خطاب کیااورتوجہ دلائی کے پچھلے تین برسوں کے دوران سعودی عرب اور پاکستان سمیت دنیا بھر میں دہشتگردی کے تقریباً8ہزار بڑے حملے ریکارڈ پر آئے ہیں۔ ان میں 90ہزار سے زیادہ افراد مارے گئے اور ہزاروں بے گناہ زخمی ہوئے ہیں۔ دہشتگردی کے زیادہ تر حملے مشرق وسطی ،جنوبی ایشیا اور براعظم افریقہ میں ہوئے جن میں سے زیادہ تر داعش، القاعدہ اور انکی ماتحت دہشتگرد تنظیموں نے کرائے۔دہشت گردی کے خلاف اسلامی فوجی اتحاد کے قیام کا اعلان پندرہ دسمبر 2015ء کو کیا گیا۔اس اتحاد کے قیام میں پاکستان، سعودی عرب اور بعض دیگر اہم ملکوں کی مسلسل مشاورت شامل تھی۔امریکہ، یورپ اور ان کے اتحادی ملکوں کی جانب سے پچھلے کچھ عرصے میں مسلم ملکوں کے خلاف جنگ کا انداز تبدیل کرتے ہوئے تکفیری گروہوں کو پروان چڑھایا گیا، فرقہ واریت میں تشدد او ر شیعہ سنی لڑائی جھگڑے کھڑے کئے گئے ،تاکہ مسلمان باہم ایک دوسرے کے ساتھ دست و گریبان رہیں اور آپس میں لڑ کر ہی اپنے وسائل برباد کرتے رہیں۔
ان کی اس تخریب کاری کے باعث سارا مشرق وسطیٰ لپیٹ میں آگیا، جس طرح پاکستان میں خودکش حملوں اور کفرکے فتوے لگا کر قتل و غارت گری سے دشمن قوتوں نے ملک کو بے پناہ نقصان پہنچایا تھا، اسی طرح سعودی عرب ، ترکی اور دوسرے اسلامی ملکوں میں بھی تکفیری گروہوں کی آبیاری کی گئی، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ یہاں بھی ایسی کارروائیوں کا آغاز ہو گیا۔اس وقت مسلمان ملکوں کو جہاں بیرونی قوتوں کی جارحیت کا سامناکرنا پڑ رہا ہے، وہیں اندرونی طور پر بھی سخت خطرات درپیش ہیں۔ یہ جنگ کی ایک نئی شکل ہے جو مسلمانوں پر مسلط کی گئی ہے۔تاریخ شاہد ہے کہ مسلمانوں نے جب کبھی میدانوں میں اسلام دشمن قوتوں کے خلاف کامیابیاں حاصل کی ہیں، صلیبیوں اور یہودیوں کی جانب سے ہمیشہ مسلم معاشروں ا ور خطوں میں فتنہ تکفیر کو ہوا دی گئی اور کفر کے فتوے لگا کر قتل و غارت کے راستے ہموارکئے گئے۔
آج بھی یہی کھیل کھیلا جارہا ہے۔مسلم معاشروں میں ایسے گروہ کھڑے کر دیئے گئے ہیں جن میں شامل درندے مسجد نبویۖ پر خودکش حملہ اور بیت اللہ شریف پرمیزائل حملوں کی مذموم سازشوں سے بھی بازنہیں آتے اور سرزمین حرمین شریفین پر حملوں کی دھمکیاں دی جاتی ہیں۔موجودہ صورت حال یہ ہے کہ دشمنان اسلام کی پروردہ شدت پسند تنظیمیں، چاہے وہ کسی بھی ملک میں ہوں، انہیں بڑے پیمانے پر اسلحہ فراہم کیا جارہا ہے، کوئی انہیں پوچھنے والا نہیں، لیکن دوسری جانب انہی بیرونی قوتوں کی طرف سے دنیا بھر میں یہ ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے کہ وہ تکفیری گروہوں کے خاتمے کے لئے کردارا دا کر رہے ہیں،جبکہ یہ بہت بڑا جھوٹ اور دھوکہ ہے۔ مغربی ملکوں کے اعلیٰ عہدیدار خود ایسی شدت پسند تنظیموں کے قیام کا جرم تسلیم کر چکے ہیں ،جبکہ دوسری جانب کشمیر، فلسطین، برما ، شام اور دیگر خطوں میں مظلوم مسلمانوں پر بدترین ظلم و ستم کیا جارہا ہے، لیکن انسانی حقوق کے نام نہاد دعویدار ملکوں اور اداروں نے اس پر مجرمانہ خاموشی اختیار کررکھی ہے، اگر کوئی ان کے آنسو پونچھنے اور اس ظلم کے آگے بند باندھنے کی کوشش کرتا ہے تو اس کے خلاف دہشت گردی کا پروپیگنڈا شروع کر دیا جاتا ہے۔ ان حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے سعودی فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز کی جانب سے یہ تجویز دی گئی تھی کہ مسلمان ملکوں کو نیٹو طرز پر اسلامی ملکوں کا فوجی اتحاد بنانا چاہیے، بنیادی مقصد یہ ہو کہ مشترکہ طور پر پالیسیاں ترتیب دے کرمسلمان ملکوں سے فتنہ تکفیر اور خارجیت کی بیخ کنی کی جائے اور اسی طرح مظلوم مسلمانوں کی بھی داد رسی کی جا سکے۔
سعودی عرب کی زیر قیادت فوجی اتحاد میں شامل ملکوں کی دلی خواہش تھی کہ مسلم امہ کا دفاعی مرکز پاکستان ،جس نے آپریشن ضرب عضب کے ذریعے ملک میں تکفیری گروہوں اور بیرونی ایجنسیوں کے پھیلائے گئے نیٹ ورک کو ختم کرنے میں شاندار کامیابیاں حاصل کی ہیں، اگر اس کی فوج اس اتحاد کی سربراہی کرتی ہے تو اس سے دنیا بھر کے مسلمانوں کو حوصلہ ملے گا اور افواج پاکستان کے تجربات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے دوسرے اسلامی ملکوں کو بھی اپنے معاشروں سے فتنہ تکفیر اور خارجیت کے خاتمے میں کامیابی حاصل ہوگی۔اسلامی اتحاد کے قیام کے بعد سے ہی بعض قوتوں کی جانب سے اسے متنازعہ بنانے کے لئے جھوٹا اور بے بنیاد پروپیگنڈا کیاجاتا رہا ہے ،تاہم حقیقت یہ ہے کہ اسلامی ملکوں کا یہ فوجی اتحاد کسی دوسرے ملک کے خلاف نہیں، بلکہ مسلمان ملکوں میں پھیلائی جانے والی دہشت گردی کے خاتمے کے لئے ہے اور اس کا واضح اظہار کئی مرتبہ اتحاد کی اعلیٰ کمان کی جانب سے کیا جاچکا ہے۔ اسلامی فوجی اتحاد کی سربراہی پاکستان کے سابق آرمی چیف جنرل (ر) راحیل شریف کو سونپی گئی ہے جنہوںنے آرمی چیف کی حیثیت سے سعودی عرب کے کئی دورے کئے، تکفیری گروہوں کی دہشت گردی کچلنے کے لئے مفید مشورے دیئے اور عملی تعاون بھی کیا، جس سے پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات نہ صرف مزید مستحکم ہوئے، بلکہ دونوں ملکوں کے درمیان دفاعی تعاون بڑھا ہے۔
اسلامی فوجی اتحاد کے وزرائے دفاع اجلاس کے دوران جنرل (ر) راحیل شریف کی جانب سے کی گئی یہ بات درست ہے کہ دہشت گردی کیخلاف جنگ انتہائی پیچیدہ اور زبردست وسائل کی متقاضی ہے۔ دراصل فوجی، پولیس اور دیگر سکیورٹی اداروں کا مقابلہ ایسے دشمن سے ہے جس کے نقوش واضح نہیں۔ یہ اول درجے کی تیاری، مکمل بیداری اور ہمہ وقت آنکھیں کھلی رکھنے کی طلب گار جنگ ہے۔بعض ممالک متعدد شعبوں میں دہشتگردی سے نمٹنے کیلئے انتظامات کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں تاہم اس خطرے کے خلاف مسلم دنیا کے صف بستہ ہونے اورایک دوسرے کا دست و بازو بننے کے حوالے سے مطلوب عمل میں کمی ریکارڈ کی جارہی ہے۔ خادم الحرمین شریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیزاور ولی عہد محمدبن سلمان کی جانب سے اسلامی فوجی اتحاد کے قیام اور دہشت گردی کچلنے کا فیصلہ انتہائی جرأتمندانہ اور تاریخی اقدام ہے۔اسلامی فوجی اتحاد کے وزرائے دفاع کے اجلاس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ رکن ممالک اپنے اپنے وسائل کے مطابق دہشت گردی کیخلاف جنگ میں حصہ لیں گے اور یہ کہ ہر ملک اس سلسلہ میں مکمل طور پر آزاد ہو گا۔”دہشت گردی کیخلاف یکجا” کے عنوان سے ہونے والا یہ اسلامی فوجی اتحاد کا پہلا اجلاس تھاجس میں رکن ممالک کے سعودی عرب میں تعینات سفارت کار اور ماہرین نے بھی شرکت کی۔افتتاحی اجلاس میں اتحاد کے سیکریٹری جنرل لیفٹیننٹ جنرل عبدالالہ الصالح نے فوجی اتحاد کی حکمتِ عملی ، نظم ، گورننس ، سرگرمیوں اور مستقبل کے منصوبوں کا خاکہ بیان کیاجبکہ رابطہ عالمی اسلامی کے سیکریٹری جنرل ڈاکٹر محمد العیسیٰ نے اپنی تقریر میں نظریے کا تعارف کرایا۔
انہوں نے دہشت گرد تنظیموں کے متشدداور انتہا پسندانہ نظریے سے نمٹنے کے لیے اسلام کے امن اور رواداری کے پیغامات کو فروغ دینے کی ضرورت پر زوردیااور کہا کہ اسلام کے رواداری ،اعتدال پسندی اور تحمل کے اصولوں کو عام کرنے کی ضرورت ہے جبکہ اس مقصد کے لیے نظریاتی ، نفسیاتی اور سماجی اصلاحات کی بھی ضرورت ہے۔سعودی ولی عہد ، وزیر دفاع اور نائب وزیراعظم شہزادہ محمد بن سلمان نے اپنے خطاب میں کہا ہے کہ دہشت گردوں کو اسلام کا پْرامن تشخص مجروح کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔آج ہم ایک مضبوط پیغام دے رہے ہیں کہ ہم دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مل جل کر کام کریں گے۔میں سمجھتاہوں کہ اسلامی فوجی اتحاد کا یہ اجلاس بہت کامیاب رہا ہے۔ دہشت گردی کے خاتمہ کیلئے آنے والے دنوں میں اس کے دور رس اثرات ہوں گے۔ ان شاء اللہ