معروف مصور اور خطاط ”ہمایوں اعظم ”سے ایک ملاقات

Hamayun Azam

Hamayun Azam

تحریر : واجد علی
آرٹ جذبات اور کیفیت کے اظہار کا نام ہے۔ فن مصوری میں مہارت رکھنے والے افراد اپنی تخلیق کی ہوئی تصاویر سے اپنے خیالات اور جذبات کا اظہار کرتے ہیں۔ہمایوں اعظم ایک انسان دوست شخصیت ہونے کے ساتھ ہمہ جہت فنکاربھی ہیں ۔ وہ ٹی وی چینلز کے بہت سے ڈراموں میں اداکاری کے جوہر دکھا چکے ہیں اور شہر میں ہونیوالی تقریبات کی میزبانی کے فرائض بھی انجام دیتے ہیں ۔فن مصوری کے حوالے سے وہ اپنی الگ پہچان رکھتے ہیں ان کی بنائی ہوئی پینٹنگز نے نہ صرف پاکستان بلکہ بیرون ممالک میں بھی پذیرائی حاصل کی ہے۔ وہ اب تک ٤٠٠ سے زائد پینٹنگز ا ور ٢٨ کتب کے سرورق ڈیزائن کرچکے ہیں۔ ہمایوں اعظم کی تاریخ پیدائش ١٥ جون ہے،اس طرح ان کا سٹار جوزا بنتا ہے اور جوزا افراد کی یہ خصوصیت ہے کہ وہ کسی بھی کام میں جنون کی حد تک دلچسپی لیتے ہیں اور زندگی کے ہر شعبے میں کامیاب و کامران رہتے ہیں۔انہوں میں مستقل سکونت کے لئے جنوبی پنجاب کے پر امن شہر بہاولپور کو اپنا مسکن بنایا ہے۔ ہمایوں اعظم نے بنیادی تعلیم گورنمنٹ ایس ڈی ہائی سکول بہاولپور سے حاصل کی اور بعد ازاں وہ گورنمنٹ کامرس کالج بہاولپور کے طالب علم بھی رہے۔ ١٩٩٣ میں انہوں اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں سرکاری ملازمت حاصل کر لی جس کی وجہ سے انہیں تعلیم کو خیر باد کہنا پڑا۔ہمایوں اعظم سے ملاقات کی تفصیل سوال و جواب کی صورت میںدرج کی جا رہی ہے۔

سوال: آپ اس وقت فن مصوری کے حوالے ایک نمایاں مقام حاصل کر چکے ہیں ۔آپ نے اس فن کا آغاز کب اور کیسے کیا؟ جواب: میں اس وقت ساتویں جماعت کا طالب علم تھا ۔پینسل ورک میں بنائی گئی ایک تصویر دل کو بھا گئی جسے نامور استاد محمد رمضان بھٹی نے تخلیق کیا تھا۔میں نے استاد محمد رمضان بھٹی سے ان کے دیگر فن پارے دیکھنے کی خواہش کا اظہار کیا ۔ان کا کام میرے دل کو اتنا اچھا لگا کہ میں نے ١٩٨٦میں ان کی با قاعدہ شاگردی اختیار کر لی۔
سوال:پینٹنگز کی اقسام پر کچھ روشنی ڈالیں ؟
جواب:پینٹنگ کی ویسے تو بہت سی اقسام ہیں مگر پورٹریٹ،لینڈ ،ایبسٹریکٹ آرٹ اور نائف پینٹنگ زیادہ اہم ہیں۔مجھے یہ اعزاز حاصل ہے کہ میں نائف پینٹنگ کے علاوہ تمام اقسام پر کام کر رہا ہوں۔

سوال:کیا فن مصوری میںاعلی تعلیم ضروری ہے؟
جواب:آج کل تقریبا تمام کالجز اور یونیورسٹیز میں شعبہ فائن آرٹ کام کر رہا ہے۔اگر میری تعلیم مکمل ہوتی تو میں بھی اس وقت کسی یونیورسٹی میں اس فن کی ترویج و تدریس میں مصروف ہوتا۔ویسے بھی تعلیم یافتہ افراد کسی بھی فن کو بہتر طور پر کر سکتے ہیں۔اس فن میں بھی تعلیم کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔
سوال: ماضی میں کس دور میں فن مصوری کے فروغ پر بہت زیادہ کام ہوا؟
جواب: مغل دور میں اس فن کی سرپرستی اور پذیرائی ہوئی ۔اس دور میں موسیقی،خطاطی اور فن مصوری کو صحیح معنوں میں فروغ حاصل ہوا اور اس کی ترویج ہوئی۔
سوال: پاکستان میں فن مصوری کا کیا مستقبل ہے؟
جواب:میں یہ کہنے میں عار محسوس نہیں کرتا کہ آج کل فن مصوری زوال کا شکار ہے۔اصل پینٹنگ کی بجائے پینافلیکس نے لے لی ہے۔اصل پینٹنگ کی اجرت پاکستان مین بہت کم ملتی ہے۔کمپیوٹر اور انٹرنیٹ نے اس فن پر منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔حکومت نے اس فن کو بچانے کے لئے ٹھوس اقدامات نہ کیے تو فن ختم ہو جائے گا۔
سوال:کیا آپ نے اس فن کے حوالے سے کوئی ایوارڈ بھی حاصل کیا؟
جواب:پاکستان گلڈ ایک ادارہ ہے جو پاکستان میں خطاطی کے فروغ اور ترویج پر کام کر رہا ہے۔میں اس ادارے سے خطاطی کے حوالے سے ایک ایوار ڈ حاصل کر چکا ہوں۔
سوال:اب تک کتنی پینٹنگز تخلیق کر چکے ہیں؟

جواب:میں اب تک ٤٠٠ پینٹنگز بنا چکا ہوں جن میں واٹر کلر،آئل کلر اور پینسل ورک شامل ہے۔
سوال:اب تک کتنی نمائشوں میں آپ کے فن پارے نمائش کے لئے پیش کیے گئے ہیں؟
جواب:پاکستان میں بد قسمتی سے نمائش بہت کم منعقد ہوتی ہیں۔تاہم میری پینٹنگز کی اب تک چار بڑی نمائشیں ہوچکی ہیں جس میں فن مصوری کے علاوہ خطاطی کے فن پارے بھی نمائش کے لئے پیش کیے گئے۔میری تازہ ترین پینٹنگز کی ایک یادگار نمائش کا اہتمام بہاولپور عجائب گھر میں کیا گیا تھا جو١٠نومبر ٢٠١٧ کو اختتام پذیر ہوئی ہے جس میں بین الاقوامی شہرت کے حامل پاکستان سے تعلق رکھنے والے نامور مصورعلی ساجد اور عجب خان شریک ہوئے اور خوب داد دی۔

سوال::کیا بطور روزگار اس فن سے مطمئن ہیں؟
جواب:میں سرکاری ملازمت بھی کرتا ہوں اور ساتھ پینٹنگز بھی۔اس طرح دونوں طرف کی آمدن مناسب ہوتی ہے۔مگر وہ آرٹسٹس جن کی گزر بسر صرف اس فن سے وابستہ ہے انہین یقینا پریشانی کا سامنا ہوتا ہے۔کیونکہ ہمارے اخراجات تو سال بھر رہتے ہیں مگر سال میں کچھ مہینے ایسے بھی آتے ہیں جن میں اس فن سے وابستہ افراد ایک روپیہ بھی نہیں کما سکتے۔
سوال::حکومت کو اس فن کے فروغ اور ترویج کے لئے کیا کرنا چاہئیے؟
جواب: حکومت کو چاہیئے کہ ہر شہر میں پینٹنگ ہال تعمیر کرے ۔ہر سال پانچ،چھ نمائش ضرور ہونی چاہیئیں جن کی سر پرستی حکومت اپنے ذمہ لے۔آرٹ کونسلز اپنا مثبت کردار ادا کریں ۔ان اقدامات سے اس فن کا فروغ ممکن ہوگا اور یہ زندہ رہے گا۔

سوال :کیا بیرون ملک اس فن کا بہتر مستقبل ہے؟
جواب:بیرون ملک اس فن کو زیادہ پذیرائی ملی ہے۔برطانیہ،انگلینڈ ،سوئٹزرلینڈ اور دوسرے بہت سے ممالک میں اس فن کا بہت معقول معاوضہ ملتا ہے۔
سوال:آپ کا پسندیدہ رنگ کون سا ہے؟
جواب : میرا پسندیدہ رنگ نیلا ہے۔مجھے نیلے رنگ کے تمام شیڈز پسند ہیں۔
سوال:آپ کے پسندیدہ آرٹسٹ کون ہیں اور کن اساتذہ سے یہ فن سیکھا؟
جواب:میرے پسندیدہ آرٹسٹ محمد رمضان اور ایس اقبال ہیں۔دونوں ہستیاں بذات خود اس فن میں کمال حد تک مہارت کی حامل ہیں اور فن کا سمندر ہیں۔میری خوش قسمتی ہے کہ میں ان دونوں نامور فنکاروں کا شاگرد ہوں۔
سوال :فن مصوری میں آنے والے لوگوں کے لئے کیا پیغام دینا پسند کریں گے؟
جواب: اس فن کو سیکھنے والے افراد کے لئے میں یہ پیغام دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ وہ اس فن کو سیکھنے کے ساتھ تعلیم ضرور حاصل کریں اورفن مصوری بہت مشکل آرٹ ہے اسے سیکھنے کے لئے شوق جنون کی حد تک درکار ہے۔
ہمایوں اعظم،”جیو اردو” آپ کا بہت شکرگزار ہے اور آپ کی مزید ترقی کے لئے دعا گو ہے۔

نوٹ: نامور مصور و خطاط ہمایوں اعظم سے موبائل نمبر92-302-7702088پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

Wajid Ali

Wajid Ali

تحریر : واجد علی