تحریر : انجینئر افتخار چودھری صبح عید میلاد النبی ہے۔سرکار کی آمد مرحبا۔خوشقسمت ہیں وہ لوگ جو آج بھی اس شہر خنک میں زندگیا بتا رہے ہیں۔
نصیب طائران خلد میں قرباں اس کبوتر پے کہ جس کا آشیاں ہے گنبد خضراء کے سائے میں(نور جرال)
گنبد خضراء کو دیکھا ہزار بار دیکھا اور بار بار دیکھا۔ان دنوں میں بھی جب یہ آبادی میں گھرا ہوا تھا ایک بہشتی پتلی سی گلی جنت البقیع لے جاتی تھی گلی میں حجار تسبیحوں کی دکان۔ان دنوں جنب ہم شیشے کے بکسوں میں بند فیروزے خردتے تسبیحان لے جاتے۔مدینہ میں جائیں اور یہ چیزیں نہ لائیں تو سفر مکمل نہیں ہوتا ایک اور سوغات مدینہ منورہ کا پودینہ ہے۔اور گلاب کی پتیاں۔کھجوریں بھی مدینہ ہی سے خریدی جاتی ہیں۔عجوہ کھجور کا نام حالیہ سالوں میں سنا اس سے پہلے صرف کھجوریں ہوتی تھیں اب تو پاکستان سے خصوصی فرمائیش کی جاتی ہے کہ عجوہ لائیں ایک زمانے میں روغن بللسان اور اب عجوہ کھجور کی گھٹھلیوں کا پیسٹ لوگوں کو تو نام بھی یاد ہو گئے ہیں قصیم کی سکری۔پردیسیوں کی زندگی اوکھی ہو گئی ہے۔میں جب ١٩٧٧ میں مدینہ گیا تو تو پہلی عید وہاں کی پانی کی سخت تنگی تھی اب تو اللہ کا کرم ہے آل سعود نے مدینہ منورہ میں بلینز ڈالرز کے منصوبے مکمل کئے ہیں۔اس وقت کا مدینہ منورہ اور اب کا زمین و آسمان کا فرق ہے۔
یہ مدینہ منورہ میں گزارے میری زندگی کے خوبصورت ترین دنوں کی یادیں ہیں۔یاد داشتیں عموما وہ لوگ لکھتے ہیں جنہوں نے زندگی کے اعلی پائیدان پر پائوں رکھ دیا ہو۔میں وہ تو نہ کر سکا مگر ان باسٹھ سالوں میں دیکھا بہت کچھ۔میرے اللہ کی یہ زمین بہت خوبصورت ہے مگر میں تو اس خوبصورت ترین جگہ میں رہ آیا ہوں جس کی خاک کو آنکھوں کا سرمہ بنانے کی تمنا مجھے بھی تھی ہے اور آپ کو بھی ہے۔
میں اس رات کا بھی ذکروں گا جس رات ہم ہینو ڈمپر ٹرک کی باڈی میں بیٹھ کر حج کرنے کے بعد مدینہ پہنچے۔گوہر رحمن میرا ننھیالی رشتے دار تھا ۔لورہ چوک میں رہتا تھا بنیادی طور پر چوک میں رہنے والوں کی بڑی تعداد پہاڑوں سے اتر کر وہاں کی بسنیک ہوئی ہے۔والدہ صاحبہ کے ایک کزن چودھری بہادر تھے جن کے نام پر بستی بہادر آباد بھی موجود ہے۔یہ موضع لسن کے چیچچی گجر ہیں۔ان کا بیٹا گوہر رحمان ستر کی دہائی میں ریاض سعودی عرب چلا گیا۔گوہر رحمان نے ہمارے ساتھ حج کیا۔ہم لوگ جیسے تیسے مدینے مین داخل ہو گئے اکچر کے پاس رہائشی پرمٹ نہ تھے ڈرے سہمے ہم آدھی رات کے وقت مدینہ شریف پہنچے۔فجر کی نماز کے وقت شہر مصطفیۖ میں داخلے کا اذن ملا۔دن وہیں گزارا تو شام کو واپسی ہوئی ۔جب مدینہ منورہ کی پرانی چوکی سے باہر آئے تو گوہر رحمن نے ٹرک رکوایا اور سڑک سے دور چلا گیا واپسی پر اس نے بتایا کہ میں نے مدینے میں مناسب نہیں سمجھا کہ اس شہر میں حوائج ضروریہ سے عہدہ براء ہوں۔یہ جذبہ اور سوچ تھی اس بھولے گوہر کی۔آج وہ اس دنیا میں نہیں ہے۔
میرا خالہ زاد بھائی درایمان جس کمپنی میں کام کرتا تھا فالکن فریٹ اس کا نام تھا یہ اقبال سہگل کی کمپنی تھی میرے دوست مسعود پوری اس کمپنی میں سپروائزر تھے۔بعد میں یہ کمپنی ان کے ہاتھ لگی ١٩٧٧ کا زمانہ تھا ایک شخص کرولا گاڑی میں ہمارے ساتھ ہی گھومتا تھا،میرا بھائی اسی کے ذریعے سعودی عرب گیا تھا۔گجرانوالہ کا ایک ایجینٹ خلیرے بھائی کے پیسے ہڑپ کر گیا۔وہ شریف آدمی تھا اس نے ایک بار جب میں نے اسے گریباں سے پکڑا تو اس نے قسمیں کھائیں کی منشاء کھا گیا ہے۔یہ چھ سات ہزار کی بات تھی۔آخر کار ویزہ مل گیا۔بعد میں منشاء ہمیں جدہ میں مل گیا ۔اسرار شاہ پرویز قادر مسعود پوری کے ساتھ منشاء سے ہماری کافی گپ شپ رہی۔قارئین وہ منشاء اب میاں منشاء ہیں اس وقت وہ سات ہزار کھا گئے تھے اب دنیا جانتی ہے پورا پاکستان انکے شکم میں ہے۔میرے پاس یہی کچھ ہے۔لوگ چین جائے بغیر سفر نامہ ء پیکنگ لکھ دیتے ہیں میں حرف حرف ہڈ بیتی لکھا ہے۔میں نے ان پاکستانیوں کو دیکھا ہے جن کا حال آپ کو بتائوں گا تو حیران رہ جائیں گے۔
مدینہ منورہ میں میری پہلی نوکری ١٩٨٤ میں جنرل موٹرز کی ڈیلر شپ میں ہوئی۔موجودہ وزیر اعظم کے والد خاقان عباسی اس ایجینسی میں شراکت دار تھے۔الحسینی موٹرز بی ایم ڈبلیو اور جنرل موٹرز کے وکیل تھے ان کے سروس ڈیپارٹمنٹ کا مینر بن کے جدہ سے گیا تھا۔وہیں سلطانہ روڈ پر ہماری رہائیش تھی محطہ الزغیبی کے پیچھے کسی نے بتایا نبی پاک محمد ۖ کے دور میں ایک یہودی اشرف نامی ہوا کرتا تھا وہ بھی اسی محلے میں رہا کرتا تھا غصہ تو بہت آیا کہ ہمارا کس بندے کے حوالے سے مسکن بنا۔الحسینی آج کل مفروشات العامر کے ساتھ ہے وہاں ایک بڑی سپر مارکیٹ بن چکی ہے۔حضرت عثمان کا کنواں اس کے پیچھے محلے میں ہے اس وقت تو اندر جا کے زیارت کر لیتے تھے۔مدینہ منورہ میں گزارے دن بہت یاد آتے ہیں۔ہمارے پاس بڑے معروف لوگ آیا کرتے۔شروع ہی سی رونق لگانے کا شوقین ہوں وہاں آنے والے مہمانوں کی پذیرائی کر کے دلی خوشی ہوتی تھی مدینہ منورہ کی ایک خاص بات ہے کہ مکہ المکرمہ میں حاجی یا زائر افراتفری میں رہتا ہے یہاں ایک طرح کا سکون پاتا ہے بہت سے لوگ چالیس نمازیں پڑھنے رکتے ہیںان آٹھ دس دنوں کے قیام کے دوران آپ پاکستان کیا دنیا بھر سے آئے مہمانوں سے جی بھر کے ملاقاتیں کرتے ہیں۔
١٩٩٢ میں ایئر پورٹ روڈ پر جنرل موٹرز کی ایجینسی میں میری نوکری ہوئی۔بچوں کو وہیں جدہ میں چھوڑا اس لیئے کہ مدینے میں کوئی پاکستانی اسکول نہیں تھا نہ اس وقت اور نہ ہی اس وقت۔دیرینہ دوست جہانگیر خالد مغل کے ہاں ٹھکانہ کیا۔اس گھر میں کون نہیں میرا اور ان کا مہمان نہ بنا۔ہم دوست اس جگہ کو آستانہ ء جہانگیریہ کہا کرتے تھے۔مسجد ابی ذر غفاری کے پاس اندر گلی میں ایک پرانی سی بلڈنگ میں دو کمروں کا گھر تھا۔ایک کو ہم بیٹھک کے طور پر استعمال کرتے اور دوسرے کمرے میں سو جاتے۔حج اور رمضان کے دنوں یہاں بڑی رونق لگی رہتی۔جہانگیر بھائی کمال کے انسان ہیں بردبار ٹرک اوپر سے گزر جائے اف نہ کرتے تھے۔بڑے واقعات بڑی یادیں وابستہ ہیں اس گھر سے۔اب تو حرم کی توسیع میں مسمار ہو گیا ہے۔اس ے پر بادام جوسز شامل ہو گئے۔گھر میں پاکستان کی نامور شخصیات آیا کرتی تھیں۔جب کبھ زیادہ مہمان ہوتے تو ہم لحم مندی دجاج مندی کے تھال لے آیا کرتے۔یہیں احمد فراز بھی آئے قمر زمان کائرہ کے تایا حاجی اصغر کائرہ میاں طفیل محمد خلیل حامدی چودھری اختر وریو عطاء الحق قاسمی احمد ندیم قاسمی غرض ایک رونق سی لگی رہتی۔آ ج پتہ نہیں مدینے کی یہ گلی کیوں یاد آ گئی۔رمضان میں ہم پاکستانی حرم میں اپنا دستر خوان لگایا کرتے۔دہی کے ڈبے کعک گول سی روٹی۔عصر کے بعد میں اور نعیم مغل جہانگیر صاحب کا چھوٹا بھائی جو چند سال پہلے اس دنیا سے چلا گیا۔اسد کیانی بھی ہمارے ساتھ ہوتا میں دہی کے چالیس پچاس ڈبے کمر پر رکھ کر گلی میں نعرے لگاتا رنگ بڑنگے دہی کہتا اپنے آقاۖ کی طرف بڑھ جاتا۔ہم پاس سے گزرنے والے کو دعوت دیتے کہ ہمارے سفرے پر آ جائو۔مدینے کی گلیاں اور مدینے کی رونق اللہ اکبر اللہ اکبر۔افطاری شروع میں تو سادہ ہی ہوا کرتی مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سفرے میں شامل ہو گئیں۔عربی دکا ایک مصالحہ بڑے غضب کا ذائقہ رکھتا ہے اسے دہی میں ملا کر کعک(گول سی روٹی) کے ساتھ کھانے کا جو مزہ آتا ہے وہ میں نے آج تک کسی اور کھانے میں نہیں دیکھا۔جی چاہتا ہے مدینے میں گزری ان گھڑیوں ان مہ و سال کے تذکرے کروں ان دوستوں ساتھیوں کی یادیں لکھوں جو دراصل تھے تو مہمان اللہ کے نبیۖ کے مگر ان کی خدمت کرنے کا موقع ہمیں بھی ملا۔
ایک بار ایک کشمیری مجاہد ہمارے مہمان بنے۔جہانگیر خالد جماعت اسلامی کے قریب تھے دروس قرآن کی مجالس میں میں بھی شریک ہوتا تھا میرا اپنا بنیادی تعلق جمعیت سے تھا تو اس حوالے سے میرے اور جہانگیر بھائی کے مہمان بعض اوقات مشترکہ ہوا کرتے تھے۔ مدینے میں تین بار نوکری کرنے کی سعادت حاصل ہوئی ایک بار ١٩٨٥ میں شارع سلطانہ پر واقع موئسسہ الحسینی میں سروس مینجر کی نوکری کی۔یہ ایجینسی شاہد خاقان عباسی کے والد مرحوم خاقان عباسی اور شیخ عبدالعزیز حسینی کی تھی جو ایک طرف سے پاکستانی تھے۔ان کے پاس پی آئی اے اور بی ایم ڈبلیو کی ایجینسی بھی تھے۔موصوف بڑے اکڑ خان قسم کے شخص تھے دونوں بڑی ایجینسیاں اپنی اکڑفوں میں کھو دیں۔ایک وقت تھا کہ شیخ فضل بی ایم ڈبلیو ٧٤٥ میں آیا کرتے تھے اور پھر وہ زمانہ آیا کہ ان کے پاس اپنے ملازمین کو دینے کے لئے پیسے تک نہ تھے۔٨٥ سے ٨٧ تک کا عرصہ وہاں گزارا اور پھر دوسری مرتبہ ١٩٩٢ میں بالبید میں سروس مینیجر کی نوکری کے لئے موقع ملا۔یہ ان دنوں کی ہی بات ہے۔پہلے دور مین سیاسی طور پر متحرک تھا مگر اتنا نہیں البتہ پھر بھی جہاں کہیں مہمان ہاتھ لگتے انہیں گھر لے آتا یا ان کی دعوت مختلف ہوٹلوں میں کرتا۔میاں طفیل خلیل حامدی اسد گیلانی سردار قیوم مجید نظامی احمد ندیم قاسمی دور اول میں میرے مہمان بنے۔
میں نے ایک باربی سی سی آئی کے آغا صاحب کا بھی تذکرہ بھی کیا تھا۔١٩٨٥ کے دور میںمیری دوستی ملک جلیل سے بھی ہوئی یہ میرے ساتھ مزدا میں کام کر چکے تھے انہوں نے سیدنا حمزہ روڈ پر ایک خوبصورت ہوٹل طباق کے نام سے بنایا جس میں حنیف عباسی لاثانیہ والے ان کے پارٹنر تھے۔ان کے ہوٹل مین اپنے مہمانوں کی خاطر داری کیا کرتا تھا۔جلیل بعد میں پنڈی چیمبر آف کامرس کے صدر بھی بنے۔ادھر باب مجیدی کے سامنے تنگ و تاریک گلیوں میں ایک چھوٹا سا ریسٹورینٹ بھی تھا جہاں میں جمعرات کو جایا کرتا تھے اس ہوٹل کے مالکان کہوٹہ کے قیوم قریشی اور ندیم قریشی دو بھائی تھے۔بڑے جی دار مخلص اور پیارے دوست۔یہ ایک ڈھابہ سا تھا لیکن حرم کے قریب ہونے کی وجہ سے بڑا چلا کرتا تھا یہ آج سے تیس سال پہلے کی بات ہے۔انہی دنوں ضیاء دور میں پاکستان کی فوج بڑی تعداد مین تبوک خمیس مشیط میں موجود تھی مدینے میں جمعرات اور جمعے کو رونق لگ جاتی۔ اس ریسٹورینٹ کو نظر لگ گئی کشمیری النسل ایک قاری صاحب سے قیوم کی ان بن ہو گئی اور وہ اسلام آباد ہوٹل بھائیوں کے ہاتھوں نکل گیا۔سعودی عرب میں پاکستان اور انڈیا سے تعلق رکھنت والے لوگوں نے انہی پائی ہوئی ہے ان لوگوں کو نیشنیلٹیاں ملی ہوئی ہیں ان میں سے اکثر وہ لوگ ہیں جو حضرت موسی کے انہے کی مانند ہیں جس کے بارے میں انہوں نے اللہ سے دعا کی تھی کہ میرے رب سب بچے کھیل رہے ہیں اس بیچارے کو کیوں اندھا بنا دیا ہے اللہ نے اسے آنکھیں دیں اور اس نے بچوں کو ڈھبکیاں دینا شروع کر دیں۔بس سمجھ لیجئے یہی وہ انہے ہیں جنہوں پاکستانیوں کی مجبوریوں کا علم ہے اور ان کا جب جی چاہتا ہے ان کے کھیسے سے رقوم نکال لیتے ہیں۔ان مین ایک نئی کھیپ انویسٹرز کی بھی شامل ہو گئی ہے جو وہیں مزدوری کرتے رہے اور وہیں انویسٹمنٹ کمپنیاں کھول کر بیٹھ گئے گویا پاکستانی رہتے ہوئے بھی کفیل بن گئے۔اس پر تفصیل پھر لکھوں گا۔
لیکن یہاں اس ہوٹل کا نوحہ لکھ رہا ہوں جہاں بھٹو دور میں دھتکارے گئے یو بی ایل کے چیف آغا حسن عابدی دو رنگی چپل پہنے مجھے ملے۔اس واقعے کو پہلے بھی بیان کر چکا ہوں۔ایک جمعرات کی شام کو میں اسلام آباد ہوٹل میں بیٹھا ہوا تھا کہ ایک جانی پہچانی سی شخصیت وہاں آئی اور کہنے لگے بھائی مکس چائے مل سکتی ہے۔میں سمجھ گیا حضرت کو شوق ہے اور وہ تھیلی والی چائے کے ستائے ہوئے ہیں۔(باقی آئیندہ)