تحریر : ملک محمد سلمان ہر کوئی محسن انسانیت و رحمت العالمین ۖکی آمد کا جشن منا رہا تھا تو دوسری طرف انسانیت دشمن بزدل دہشت گرد وں نے زرعی ڈائرکٹوریٹ پشاور کے معصوم طلبہ پر صبح سویرے حملہ کردیا۔زرعی ڈائریکٹوریٹ پر دہشت گردوں کے حملے کی اطلاع ملتے ہی جہاں پولیس اور دیگر فورسز کی جوان موقع پر پہنچے وہیں فرض شناس ایس ایس پی آپریشن پشاورسجاد خان وقت ضائع کیے بن گھریلو لباس میںہی اپنی گن تھام کر دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کرنے پہنچ گئے جبکہ سی سی پی او طاہر خان عام سپاہیوں کی طرح گن تھامے دہشت گردوں سے لڑتے رہے۔ زرعی ڈائریکٹوریٹ پر دہشت گردوں کے حملے کے نتیجے میں 9 افراد شہید ہوگئے جب کہ فورسز نے تمام حملہ آوروں کو ہلاک کردیا۔
پولیس فورس کے حوالے سے ایسی دلیرانہ کارکردگی کی یہ کوئی پہلی مثال نہیں ہے، ایماندار اور بہادر پولیس افسران کی کمی نہیں ہے۔ گوریلا جنگ لڑنے والے دہشت گردوں کے خلاف لڑنے کی خصوصی تربیت نہ ہونے،ناقص سازو سامان، غیر معیاری اسلحے، پھٹیچر گاڑیوں، اور قلیل وسائل کے باوجود، انتہائی بہادری سے لڑنا، طاہر خان اور سجاد خان جیسے افسران کی بدولت ہی ممکن ہو پایا ہے،سی سی پی او طاہر خان اور ایس ایس پی آپریشن سجاد خان جیسے افسران کا وجود یقینی طور پربہت بڑی نعمت ہے۔
پشاور پولیس نے بروقت کارروائی کرتے ہوئے زرعی ڈائریکٹوریٹ پر دہشت گردوں کے حملے کوناکام بناتے ہوئے درجنوں افراد کی جانوں کو بچایا تو سوشل میڈیاپر پولیس کی کارکردگی کو خوب سراہا جارہا ہے۔عوام جسے اعلیٰ پولیس آفیسر حقیر سمجھتے ہیں ۔غریب عوام جسے اپنے جائز کام کیلئے بھی تھانے جاتے ہوئے ڈر لگتا ہے ،ناکوں اور تھانوں پر تعینا ت اہلکاروں کی نظر ہمیشہ ان کی جیب پر ہوتی ہے۔آج وہی عوام کراچی سے خیبر تک پاکستان کا ہر باشعور شہری گلی چوراہوں اور سوشل میڈیا پر پولیس کی بہادری کے چرچے کرتے ہوئے اپنی” فیس بک” ڈی پی تبدیل کرکے پولیس سے اظہار یکجہتی کر رہے ہیں ۔پولیس کے ہر جوان کیلئے پیغام ہے کہ وہ طاہر خان اور ساجدخان جیسے جانباز پولیس آفیسرز کو رول ماڈل بناتے ہوئے وڈیروں کے تلوے چاٹنے کی بجائے عوام کی خدمت کریں تو پھر عوام آپ کو سرآنکھوں پر بٹھائے گی۔ یہ تلخ حقیقت بھی تسلیم کرنی پڑے گی کہ تھانہ پولیس والوں کی ایک علیحدہ سلطنت ہوتی ہے جہاں وہ ہرسیاہ و سفید کے مالک ہوتے ہیں۔ ایف آئی آر درج کروانے اور اسے خارج کروانے کے چارجز مختلف ہیں۔تھانہ کلچر کوبگاڑنے والے کوئی اورنہیں ہم خود ہیں ،اگررشوت کی وصولی حرام ہے تودینا بھی حلال نہیں۔مانالوگ جائزکام کیلئے بھی رشوت دینے پرمجبورہیں مگر زیادہ ترواقعات میں شہریوں کے ناجائز اورمذموم مقاصد کی تکمیل اور دوسروں کو انتقام کانشانہ بنانے کیلئے پولیس کاسہارا لیا جاتا ہے۔جہاں پورامعاشرہ اورنظام بدعنوانی اوربدانتظامی کی بندگلی میں کھڑا ہووہاں کوئی ادارہ کس طرح صاف ستھرارہ سکتا ہے۔
دنیا کاکوئی معاشرہ اورادارہ پوری طرح گندی مچھلیوں سے پاک نہیں ہے۔تاہم ان گندی مچھلیوں کے سبب مجموعی طورپر اس ادارے کے بارے میں منفی رائے قائم نہیں کی جاسکتی۔ہم افراداوراداروں پرتنقیداوران کی توہین کرتے وقت ان کی معاشرے کیلئے ضرورت اور اہمیت کو کیوں بھول جاتے ہیں۔پولیس کا ادارہ کسی بھی ملک اورمعاشرے کیلئے انتہائی اہمیت کاحامل ہے۔جس طرح ہمارے فوجی سرحدوں کے محافظ ہیں،وہ ہماری آرام دہ نیند کیلئے خود رات بھرجاگتے اوردشمن کی سنگینوں سے نکلی گولیاں روکنے کیلئے اپنے سینوں کوڈھال بناتے ہیں۔اس طرح شہروں میں امن وامان برقراررکھنے کیلئے پولیس کے آفیسراوراہلکار سردھڑ کی بازی لگاتے ہیں۔مسجد،مدرسہ ،مجلس عزا ،مقدس شخصیات کے مزار،عرس ،عدالتوں،جلسہ ،جلوس ،بنک،وی آئی پی روٹ اورالیکشن ڈے سمیت کوئی بھی ہنگامی صورتحال ہوتوپولیس اہلکاروں کو تعینات کیا جاتا ہے۔یہ چوروں،ڈاکوؤں اورقاتلوں کاتعاقب اورانہیں گرفتارکرتے کرتے کئی بارموت سے آنکھ مچولی کھیلتے ہیں۔پولیس اہلکار اپنی ڈیوٹی اوقات آٹھ گھنٹے سے زائد ڈیوٹی کرتے ہیں،مگر انہیں کوئی اوور ٹائم نہیں دیا جاتا،بعض اوقات سیکورٹی کی وجہ سے پولیس اہلکا روں کو چوبیس چوبیس گھنٹے ڈیوٹی کرنا پڑتا ہے،تہواروں کے موقع پر یہ اپنی خوشیاں چھوڑ کر ہماری حفاظت کے لئے ڈیوٹی کرتے نظر آتے ہیں،دہشت گردی کی اس جنگ میں سب سے زیادہ قربانیاں پولیس ڈیپارٹمنٹ نے دی ہیں،شہادتوں کی طویل فہرست ہے۔مگر پھر بھی پولیس کا محکمہ چند کالی بھیڑوں کے سبب بدنام کردیا جاتا ہے۔
اگر آپ پولیس کا امیج بہتر کرنا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے ریاست اور ڈیپارٹمنٹ کو اپنی ذمہ داری پوری کرنا پڑے گی،امن وامان قائم کرنے والوں کے گھر والوں ان کے بیوی بچوں کو سب سے پہلے امن و سکون مہیا کیا جانا چاہیے،فوجی فاؤنڈیشن،بحریہ فاؤنڈیشن اور پی اے ایف اسکول قائم ہو سکتے ہیں تو ان کے بچوں کے لیے کیوں نہیں،باقی فورسز والوں نے اپنے حاضر و ریٹائرڈ افسروں اور اہلکاروں ان کے بچوں حتی ٰ کے ان کے ماں باپ کی ویلفئیر اور علاج معالجے کا بندوبست کر رکھا ہوتا ہے جو کہ نہایت خوش آئند ہے مگر پولیس والوں کے بچوں کے اسکولز اور ان کے والدین کے علاج کے آگے سوالیہ نشان کیوں ہے؟
پولیس فورس کوکرپشن سے پاک کرنے کیلئے یونیفارم نہیں سسٹم تبدیل کریں،اسے سیاسی مداخلت سے آزاد کرناہوگا۔ سیاستدان اپنے سیاسی مفادات کیلئے اپنے وفادار ڈی پی اوزاور ایس ایچ اوزکی پوسٹنگ پراثراندازہوتے ہیں۔کوئی پولیس والا آزاد رہ کر پرسکون ماحول میں اپنی ڈیوٹی سرانجام نہیں دے سکتا،ہر وقت اسے دھڑکا لگا رہتا ہے کہ اگر کسی ایم این اے ایم پی اے کو انکا رکیا تو اگلے دن کہیں دور دراز بیٹھا ہو گا۔ حکومتی ارباب اختیار اگرپولیس کا امیج بہتر کرنا چاہتے ہیں ان سے کوالٹی ورک لینا چاہتے ہیں تو ان کے کام میں سیاسی مداخلت بند کردیں ان کو شارپ شوٹر گاڑیا ں اور تمام جدید سہولیات مہیا کر دیں پھر دیکھیں کہ یہ لوگ کیسے اپنی ڈیوٹی سرانجام دیتے ہیں،جہاں عام سیکورٹی ادارے فیل ہو جاتے ہیں وہاں پہ آرمی فی الفور کنٹرول کر لیتی ہے وجہ کیا ہے کہ وہ اپنے کام میں کسی بھی قسم کی مداخلت برداشت نہیں کرتے ،فراہم کردہ بہترین وسائل کا استعمال بھی بہترین کرتے ہیں،پولیس ناکام کیوں وجہ صرف بے جا سیاسی مداخلت ہے ورنہ پولیس کے جوان بھی نہ صرف اپنے فرائض سے بخوبی اگاہ ہیں بلکہ جرائم کے خاتمے کیلئے بہترین اہلیت رکھتے ہیں،فرق صرف مکمل اختیارات اور ان کے استعمال کا حق دینے کا ہے۔