تحریر : عتیق الرحمٰن کیا موجودہ حالات نظام میں بڑی (انقلابی) تبدیلی کی طرف جارہے ہیں یا ساری کاروائی صرف چہرے کی تبدیلی ثابت ہوگی ؟ اور وہی پرانے چہرے نئے لیبل کے تحت اقتدار پر براجمان ہونگے ؟نظام باقاعدگی سے ایک دوسرے پر اثر انداز اور انحصار کرنے والے عناصر کا مجموعہ ہے کسی بھی ملک کا نظام اپنے مقامی حالات اور محلِ وقوع سے متاثر اور اپنےماحول اور گرد ونواح سے گھرا ہوتا ہے جسے ہم اس کے مقاصد، بناوٹ اور ترکیب کے مطابق پرکھ سکتے ہیں آئین اور قانون ، روایات، طرزعمل ، قواعد و ضوابط، طرز حکمرانی، ادارے اور اسی طرح کے دیگر عوامل کسی بھی ملک کے نظام کو واضح کرتے ہیں۔
روز مرہ کے امور کی انجام دہی کے لیے واضح کئے گئے قوائد ہی دراصل نظام ہے جس کے لیے آئین اور قوانین بنائے جاتے ہیں ہر ملک کا آئین عوامی کی اکثریت کے حقوق کا تحفظ کرتا ہے اور آئین میں ترامیم بھی بظاہر عوام کے مفاد میں کی جاتی ہیں لیکن اس کے باوجود تیسری دنیا کے ممالک کی عوام کسمپرسی جبکہ چند افراد کا ٹولہ عیاشی کی زندگی گزار رہا ہے۔ نظام بنائے تو جاتے ہیں لیکن اہم بات یہ ہے کہ اس پر عمل کتنا کیا جاتا ہے۔ اس لیے اگر ہم یہ کہیں تو بےجا نہ ہوگا کہ نظام ایک کتابی دستاویز نہیں ایک رویہ ہے یہ صرف سربراہ حکومت ہی نہیں تمام سرکاری مشینری کا روز مرہ کے امور کی انجام دہی کا طریقہ ہے اس لیے بظاہر ایک چہرے یا خاندان کی تبدیلی سے نظام میں وہ تبدیلی نہیں آئے گی جس کی اشد ضرورت مملکت پاکستان کو ہے ہمارا نظام فالج زدہ اور ناقابل اصلاح ہوچکا ہے اور اس میں بنیادی تبدیلی (اصلاحات) کے بغیر الیکشن کے عمل کو جاری رکھنے سے کوئی خاطر خواہ نتائج برامد نہیں ہونگے۔
یہ کھیل ہم 60 سالوں سے دیکھ رہے ہیں کہ جب عوام میں اس نظام سے بیزاری پیدا ہونتی ہے تو چہرے یا حکمران جماعت ہی تبدیل کردی جاتی ہے یا اسی جماعت کے افراد کو لے کر ایک نئی سیاسی جماعت کھڑی کردی جاتی ہے نئے نعرےاور نام سے عوام کو پھر سہانے خواب دیکھائے جاتے ہیں اور بھولی عوام پھر تبدیلی کے نعرے پر بے وقوف بن جاتی ہے پرانے آزمائے ہوئے انجن و ڈبوں پر مشتمل ٹرین کبھی منزل مقصود پر نہیں پہنچا سکتی وہ جو خود اس نظام کی پیداوار ہیں اور کل تک اس نظام سے مفادات حاصل کرتے رہے وہ کبھی نظام کی تبدیلی کی جدوجہد کریں گے نہ اس جدوجہد کو کامیاب ہونے دیں گے- یہی وجہ ہے کہ تبدیلی کے نعرے میں بھی تبدیلی آتی جارہی ہے اور اب چہرے کی تبدیلی اور اقتدار کے حصول کو اصل مقصد بنالیا گیا ہے۔
قابل ذکر ووٹ حاصل کرنے والی تمام جماعتیں اس وقت اقتدار میں ہیں اور اپنی حکومت کے چار سال سے زائد عرصہ گزار چکی ہیں لیکن انیس بیس کے فرق کے علاوہ کوئی انقلابی تبدیلی تو کیا تبدیلی کا نشان بھی دور دور تک نظر نہیں آتا عوام کو سوچنا ہوگا کہ وہ کب تک تبدیلی اور حقوق کے حصول کے لیے ان ہی لوگو کے پیچھے بھاگتے رہیں گے عوام ایک بار اس نظام انتخابات کو ہی مسترد کیوں نہیں کردیتے جس میں تبدیلی چاہنے والے کبھی قابل ذکر تعداد میں اسمبلی کے فلور پر نہیں پہنچ سکتے۔ اس نظام میں جیتنے کے لیے پیسہ، دھونس، دھاندلی، ظلم، جبر اور مافیا کی سرپرستی چاہئے اور یہ شرائط کوئی بھی انقلابی ذہن رکھنے والا لیڈر پوری نہیں کرسکتا۔ اس نظام کے تحت ہونے والے الیکشن کے اجزاء ضروری نہ ایسے لوگوں کے پاس ہونگے اور نہ وہ قابل ذکر تعداد میں اسمبلی میں پہنچ سکیں گے۔
نہ نو من تیل ہوگا نہ رادھا ناچے گی
یہاں تبدیلی کو بھی چوروں اور بھگوڑوں کی ضرورت ہوتی ہے اور وہ انکی شمولیت پر خوشی کا اظہار بھی کرتے ہیں ہر آنے والا باغی اور چھوڑ کے جانے والا داغی بن جاتا ہے یہ نظام انہی لوگوں کا ہے وہ ہی اس نظام کی ضروریات رکھتے ہیں، عوام کی اکثریت اس نظام میں Qualify نہیں کرتی یہ نظام انکاہے اور وہی اس میں کھلیں گے یہ کھیل شرفاء کا نہیں چاہے وہ ڈاکٹر قدیر خان اور عبدالستار ایدھی جیسے محسن پاکستان ہی کیوں نہ ہوں۔
کیا نواز و شہباز شریف، ذرداری، الطاف حسین، مولانا فضل الرحمٰن اور اسفندر یارولی ہی کرپٹ ہیں جو انکا ساتھ دیتے ہیں وہ کرپٹ نہیں؟ جو انکا ساتھ دیتے ہیں کیا وہ کسی نظریہ، عوام، پاکستان اور اسلام کی خدمت کے لیے دیتے ہیں؟ جو کروڑوں لگا کر اپنی سیاست بناتا اور الیکشن لڑتا ہے وہ عوام کی خدمت کرنا چاہتا ہے یہ سب سے بڑا جھوٹ فریب اور مکر ہے اس کرپشن کے دستر خوان سے سب ہی مستفید ہوتے رہے اور ہورہے ہیں اور زیادہ کی تلاش میں ایک پارٹی سے دوسری پارٹی میں چھلانگ لگاتے ہیں نہ انکا کوئی نظریہ ہے اور نہ لیڈر، انکا مقصد بس اپنے مفادات کا تحفظ ہے۔ اگر کسی کو اس میں کوئی شک ہے تو وہ ان لیڈران کے سابقہ اور نئے لیڈران کی تعریف اور تحفظ میں بیانات دیکھ لے اگر پھر بھی عوام یہ سمجھتی ہے کہ وہ انکے وفادار رہیں گے تو میں یہی کہوں گا کہ وہ بے وقوفوں کی جنت میں رہتے ہیں اور ہمیشہ اسی میں رہنا چاہتے ہیں- پاکستان میں نظریہ، منشور، قابلیت، ایجنڈے اور کارکردگی کی بنیاد پر سیاست نہیں ہوتی، ووٹ زات، برادری، قومیت، مسلک اور لاشوں پر دیئے جاتے ہیں پھر تبدیلی کیسے ممکن ہے یہی وجہ ہے کہ سیاست پر چند خاندانوں کا کنٹرول ہے اور عوام کی اکثریت کے لیے یہ ایک شجر ممنوع ہے۔