تحریر : چوہدری ذوالقرنین ہندل معاشرے میں قتل و غارت عام ہوتی جا رہی ہے، معاشرہ بد عنوانیوں کی لپیٹ میں ایسا لپٹا ہے کہ اپنے سگے اپنا خون بھی زندگی کی کشمکش میں( افراتفری میں) بھروسے کے قابل نہیں رہا ۔آئے روز کوئی نہ کوئی ایسا واقعہ رونما ہو جاتا ہے ،جس میں یہ بتایا جاتا ہے کہ والد نے بیٹیوں کو قتل کر دیا ہے ۔ ایسے واقعات بھی منظر عام پر آنا شروع ہوگئے ہیں جنہیں دیکھ کر سن کر انسان ایسی سوچ میں پڑ جاتا ہے کہ خونی رشتوں پر بھی اعتبار نہ کیا جائے۔دشمنوں کی طرف سے پھیلائی ہوئی دہشتگردی جتنی مہلک ہے اس سے کہیں زیادہ خطرناک اپنے سگوں کا سگوں کے ہاتھوں قتل ہونا۔ہمارا معاشرہ جس طرف جا رہا اس سے افرتفری کی فزا مزید پھیلے گی اور خدا نہ خواستہ ایسی خطرناک فضا معاشرے ،ملک و قوم سب درہم برہم کردیتی ہے باقی کچھ نہیں بچتا۔
برسوں پہلے، جب ٹیکنالوجی عام نہیں تھی۔گاڑیوں کا شور و دھواں نہیں تھا۔روپے کی اتنی روانی نہیں تھی۔شہروں کی حدودیں بھی اتنی بڑی نہیں تھیں۔دیہات بھی آباد تھے۔البتہ بجلی گیس نام کی کوئی چیز نہیں تھی،اگر تھی بھی تو مخصوص حلقوں تک تھی۔لوگ کنوؤں سے پانی بھر کر پیتے تھے۔آسانیاں نہیں تھیں ہر کام کے لئے بڑی محنت درکار تھی۔روزگار کے لئے خوراک کے لئے اچھی خاصی محنت درکار تھی۔ان سب کے باوجود بھی معاشرہ پر سکون تھا۔لوگ مطمئن تھے،شکر کے کلمات ادا کئے جاتے تھے۔مکان کچے تھے، مسجدیں کچی تھیں۔جدت کے لحاظ سے زمانہ آج سے بہت پیچھے تھا۔سائنسی علوم سے لوگ بہت کم شناسائی رکھتے تھے۔اخلاقی علم سے مالا مال تھے۔آپ ﷺ کی تعلیمات کا گہرہ اثر تھا ان لوگوں پر،آپ کی تعلیمات کو سینے سے لگا کر رکھنے والے لوگ تھے ۔حسن اخلاق ،عزت و احترام اور احساسات جیسی کئی خصوصیات ان میں موجود تھیں۔جو واقعی ان سادہ مگر صاف دل لوگوں نے آپﷺ کی حیات مبارکہ کے مطالعہ سے ہی سیکھی ہوں گی۔زمانہ سست تھا،مگر سکون و لطف سے بھرپور۔ایک دوسرے کا احساس اتنا کہ جتنا آج کے خونی رشتے بھی نہ رکھتے ہوں۔
اسلحہ عام نہیں تھا شاید اس کی اتنی ضرورت بھی نہ تھی۔خالص و پوتر لوگ، بغض نہ رکھنے والے لوگ تھے۔کوئی بھی گلہ شکوہ ہوتا تو کھل کر بیان کر دیتے دل میں غصہ نہ رکھتے۔شاید اسی لئے برائیاں بہت کم تھیں معاشرہ قاتل نہیں تھا۔چوری چکاری بہت کم تھی۔قتل و غارت جیسی واردات بھی نہ ہونے کے برابر تھیں۔اگر کوئی قتل جیسا بڑا سانحہ ہو بھی جاتا تو پورا معاشرہ سوگ میں مبتلا ہو جاتا۔سوگ دور دراز کے علاقوں دیہاتوں کو بھی غمگین کر دیتا۔یہاں تک کہ فضائیں بادل بھی سوگ میں برابر کے شریک ہوتے۔آندھیاں و طوفان برپا ہوجاتے جس سے دور دراز کے لوگ بھی آگاہ ہو جاتے کہ کوئی بڑی انہونی ہوئی ہے۔سوگ میں غمگین یہ لوگ اپنے رب سے رحمت و سلامتی کی دعا کرتے۔ایسی انہونی کبھی کبھار ہوتی اسی لئے لوگ اسے مہینوں تک نہ بھول پاتے اور غمگین رہتے۔آج کا معاشرہ قاتل کہلانے کے لائق ہے کیونکہ روز بروز بڑی بے دردی سے لوگ قتل ہو رہے ہیں مگر کسی کو کوئی احساس نہیں۔روز بروز کی بدعنوانیوں نے ہمارے احساسات کو ختم کر دیا ہے۔احساسات کی جو تھوڑی بہت رمق باقی ہے وہ بھی نہیں رہی یہاں دوسروں کے قتل پر افسردہ ہونے کی بجائے لوگ اپنے خونی رشتوں کو بھی قتل کر رہے ہیں۔
پھر زمانہ بدلتا گیا،وقت گزرا اور دیکھتے ہی دیکھتے شہروں کی حدود دیہاتوں سے لگنے لگی دن رات محفلیں جمنے لگیں۔ٹیکنالوجی نے زندگی ہی بدل دی،زندگی سہل ہوگئی۔انسان محنت سے عاری ہونے لگا۔ انسان آسانیوں کے اس دور میں غافل ہونے لگا ۔اللہ اور اسکے احکامات کو بھولنے لگا۔دنیا کی رنگینیوں میں رنگنے لگا۔ دنیا کی افراتفری میں اسلحے میں بھی جدت آئی۔اختلافات بڑھنے لگے، قتل و غارت روز کا معمول بن گئی۔معاشرے کا توازن بگھڑ گیا۔باہمی مفادات ختم ہوگئے ،ذاتی مفادات نے ترجیح لے لی۔ظاہری رنگین محفلوں والا پرکشش معاشرہ، انسان کو ذہنی الجھنوں میں پھنسانے لگا۔انسان اتنی چہل پہل افراتفری میں بھی ذاتی مفادات تک،تنہا ہونے لگا۔معاشرہ دن بدن ٹوٹنے لگا۔انسانی سوچیں بڑھنے لگیں۔انسان مالیت پرست ہو گیا۔پریشانیاں بڑھنے لگیں۔معاشرہ بے ہنگم ہو گیا ،لوگ چکرا گئے۔انسانی قدروں کا خاتمہ ہوگیا۔اتنی بڑی فورسز اداروں اور قوانین کے باوجود بھی انسانی درندگی حوس و بد عنوانی بڑھنے لگی۔معاشرے کا بھائی چارہ تو ختم ہوا مگر خونی رشتے بھی مدھم ہوکر ختم ہونے لگے۔نفسیاتی بیماریاں بڑھنے لگیں۔نفسیات پر کنٹرول ختم ہو گیا، انسان کا خود پر قابو ختم ہوگیا۔معاشرہ بظاہر بڑا رنگین ،درحقیقت ایک قاتل و کھوکھلا معاشرہ بن کر رہ گیا۔
یقین مانئے جب سے ہوش سنھبالا ہے حالات دن بدن سنگین ہوتے جا رہے ہیں۔بے حسی و بدعنوانیوں کی ایسی ایسی خبریں سننے کو ملتی ہیں جیسے انسانوں کے معاشرے میں نہیں کسی اور مخلوق کے معاشرہ میں رہ رہے ہیں۔دشمنوں و دہشتگردوں کے ہاتھوں معصوموں ،بوڑھوں اور جوانوں کا شہید ہونا تو معمول ہے۔بھائی ، والد اور چچا کے ہاتھوں بہنوں بیٹیوں کا قتل ہونا بھی معمول بن چکا ہے۔بیٹے کے ہاتھوں باپ و ماں کا قتل ہونا بھی اس قاتل کا معاشرے کا کارنامہ ہے۔مگر گزشتہ روز ایک نئی ہی خبر سننے کو ملی ہے جس نے رشتوں کے کم ہوتے اعتبار کو مکمل ہی ختم کر دیا ہے۔اس سے آگے اب کچھ نہیں یہ انتہا ہے معاشرہ قاتل ہے قاتل ہے۔وہ قاتل معاشرہ جس میں ماں نے اپنے شوہر سے جگھڑے کی بنا پر اپنے ان ننھے منے بچوں کو گلہ کاٹ کر قتل کر دیا جو شاید اس ماں کے قدموں تلے اپنی جنت کے متلاشی ہوں گے، اور پھر بھی تسلی نہ ہوئی تو انہیں نہر میں پھینک دیا۔ وہ کمسن بچے جنہوں نے زندگی کے کچھ برس ہی گزارے تھے۔
جنہیں ابھی سکولوں کالجوں میں پڑھنا تھا،جنہوں نے زندگی میں ابھی کسی سے کوئی لڑائی جگھڑا بھی نہیں کیا تھا۔ جنہیں شاید ابھی لفظ موت اور قتل سے واقفیت بھی نہ تھی۔ جنہیں ابھی دنیا کی درندگی کا اندازہ بھی نہ تھا۔ جن کی عمر کھیلنے کی تھی۔ اور ابھی وہ ماں کی ممتا میں خوشیوں کے متلاشی تھے، جس ماں کی گود میں کھیلنا تھا جس کے ہاتھوں سے غذا کے لقمے کھانے تھے انہیں ہاتھوں نے نہ جانے کیسے چھری چلائی ہوگی،اگلے جہاں میں بیٹھے یہ معصوم بچے ضرور افسردہ ہوں گے اور اپنے رب سے گلہ بھی کریں گے۔ اے خدایہ یہ کیا ہوا ماں تو بچوں کے لئے جان قربان کرسکتی ہے ماں کے قدموں تلے تو جنت ہے اے ہمارے رب خداوند ہم اپنی جنت کہاں تلاش کریں ہماری جنت نے تو ہمیں لہولہان کردیا آخر ہمارا کیا قصور تھا ۔اس سے زیادہ بے حسی بدعنوانی کیا ہو سکتی ہے ۔یہ معاشرہ اخلاق احساس سے بہت دور چلا گیا ہے۔ایسے ہی کئی واقعات اور ہیں جو انسانی درندگی کو عیاں کرتے ہیں۔کچھ ہی روز قبل گوجرانوالہ میں ایک باپ نے اپنی دو کمسن بیٹیوں کو زندہ نہر میں پھینک دیا۔ایک دیہاتی عورت نے پیر کے کہنے پر اپنے بیمار بیٹے کا قتل کر دیا۔کیا کیا لکھوں! بے حسی و بدعنوانی کے قصے ہیں کہ بڑھتے جا رہے ہیں۔
اس سے بڑی سفاکی کیا بتاؤں آدمی ہی انسانیت کا قاتل نکلا تڑپا تڑپا کر سسکا سسکا کر مارا جس نے بھائی ہی بہن کا قاتل نکلا دیس کی مٹی کی وفا کو کیا ہوا اس دیس کی مٹی کا وجود بھی غافل نکلا اس مٹی کی اور کیا بے وفائی بتاؤں بیٹا ہی باپ کا دشمن عناصر نکلا زرخیز اس مٹی نے اگایا ہے نفرت کو برابر کہ بھائی ہی بھائی کا قاتل نکلا اس دیس کی کیا داستان سناؤں ہندل ہائے ماں بیٹے کی اور بیٹا ماں کا قاتل نکلا